آدابِ گفتگو

May 18, 2019

محمد دانش

پیارے بچو! بات چیت کرنے کا انداز بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی شخص چاہے کتنا ہی خوش شکل اور خوش لباس کیوں نہ ہو، اس کی شخصیت کا اثر اس وقت قائم ہوتا ہے، جب وہ گفتگوکرتا ہے۔ آپ کا اخلاق، آپ کی ذہانت، خلوص ، شائستگی اور دوسروں میں آپ کی دل چسپی آپ کے اندازِ گفتگو ہی سے ظاہر ہوتی ہے اور اسی طرح بات چیت کے ذریعے ہی انسان کے خاندانی پس منظر ، بد مزاجی، خود پرستی اور بُرے اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کاانداز گفتگو نہایت متوازن اور موقع محل کی مناسبت سے ہونا چاہیے اور وہ جو کہاوت ہے کہ ’’ پہلے تولو ، پھر بولو‘‘ا س میں بڑی حکمت ہے، کوشش کیجیے کہ کبھی ایسی بات منہ سے نہ نکالیں، جس کے لئے بعد میں پشیمانی یا شرمندگی ہو۔

آدابِ گفتگو میں مند رجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

بات واضح، صاف اور ایسے لہجے میں کریں کہ سننے والوں کو سمجھنے میں دقّت پیش نہ آئے، آواز نہ بہت اونچی ہواور نہ ہی سر گوشی میں ہو، بلکہ بہت مناسب ہو۔

محفل میں کانوں میں بات کرنا آداب محفل کے خلاف ہے، اس سے گریز کریں۔

گفتگو کرتے وقت خیال رکھیںکہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہ کریں، دوسروں کی بھی سنیں۔

گفتگو کے دوران ہر کسی کا احترام ملحوظِ خاطر رکھیں، کسی کو نیچا دکھانے یا عیب جوئی کرنے سے گریز کریں، اگر کوئی گِلہ شکو بھی کرنا ہو، تو اکیلے میں کریں، سب کے سامنے نہیں۔

خیال رہے کہ اگر ایک شخص بات کر رہا ہو، تو جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کرلے، آپ درمیان میں نہ بولیں، تاہم اگر کہیں وضاحت کرنے کے لیے درمیان میں بولنا ضروری ہو، تو قطع کلامی کی ’’معافی‘‘ کہہ کر بات کیجیے۔

گفتگو کے دوران اپنی علمی قابلیت کو بہت زیادہ جتلانا بھی درست نہیں، بس موقعے کی مناسبت سے خوش گوار انداز میں زیرِ بحث موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

آدابِ گفتگو میں دوسروں کے موقف کا احترام کریں اور اپنا موقف دوسروں پر زبر دستی ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں، ہاں دلائل سے ضرور قائل کریں۔

سلام میں پہلا کرنا ہماری اسلامی تعلیمات کا حصّہ ہیںاور اس کی پابندی لازمی ہے، بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ ’’السلام و علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ‘‘ کہا جائے، اسی طرح سلام کا جواب بھی برملا دیا کریں۔