صوبہ سرائیکی عوام کاحق…

May 20, 2019

تحریر:شمع ناز …کراچی
زندہ کر ضمیر کجھ سوچ سرائیکستان دا
بہوں کھٹیاکھا گھدے تیڈی گنگی زبان دا
سرائیکی زبان کے مشہور شاعر عاشق صادقانی کے یہ اشعار اس وقت پورے سرائیکی وسیب کی آواز بن گئے ہیں۔ سرائیکی صوبے کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ سرائیکی قوم اپنی ایک الگ شناخت، الگ زبان، الگ تہذیبی اور ادبی ورثے کی مالک ہے جہاں تک سرائیکی ادب کا تعلق ہے تو صدیوںپہلے حضرت بابا فرید گنجِ شکر(1188-1266) سے لے کر سلطان باہو، حضرت سچل سرمست اور خواجہ غلام فرید (پیدائش25: نومبر 1845ء — وفات24: جولائی 1901ء) تک اور ان کے بعد موجودہ دور کے شعرا تک سرائیکی کلام، سرائیکی ادب اور شاعری کی قدامت کی دلیل ہے۔ (واضح رہے کہ اردو زبان کو بھی کم و بیش اتنا ہی عرصہ ہوا ہے۔)
سرائیکی صوبے کی اپنی پہچان کے حوالے سے سرائیکی قوم کافی عرصے سے کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے مرحوم تاج محمد لنگاہ کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، انہوںنے 1989سے سرائیکی صوبے کے لئے کام شروع کیا اور مرتے دم تک اس کے لئے کام کرتے رہے۔ سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے اہم پیش رفت صدر آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میںہوئی۔ ان کے دور میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا باقاعدہ مطالبہ پیش کیا گیا۔2 مئی2012 کو قومی اسمبلی نے جنوبی پنجاب صوبے کی قرارداد کو کثرتِ رائے سے منظور کیا۔7 مارچ2013 کو سینیٹ میں نئے صوبوںکے قیام کے لئے24ویںترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ اگرچہ ان کے دور میں صوبہ تو نہ بن سکا لیکن یہی بڑی بات تھی کہ کم از کم پارلیمنٹ اور سینیٹ کی سطح پر اس پر بات کی گئی اور اس مطالبے کو ایک ٹھوس شکل دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد ن لیگ برسرِ اقتدار آئی۔ انہوں نے سرائیکی صوبے کے ساتھ ساتھ ایک نئی پخ بہاول پور صوبے کی بحالی کی لگا دی۔ بعد ازاں انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کو بہاول پور صوبے کی بحالی سے مشروط کر کے اس پورے معاملے کو لٹکا دیا۔ دراصل مسلم لیگ ن صوبے کی تقسیم سے خائف رہی ہے جبکہ سرائیکی قوم پرستوںکا یہ ماننا ہے کہ سرائیکی وسیب کا لاہور سے کوئی تعلق نہیںہے۔
اساں تخت لاہور اچ ایندے نی
ساڈی اپنی ہک پہچان ہووے
ہووے دیس ڈیروار سندھ ستلج ساڈا
ذاتی تھل دا مان ہووے
نہ در در دھکے روزدے کھاؤں
ملتان اچ خود ایوان ہووے
دواناظر ہک ہک بال آکھے
ساڈا صوبہ سرائیکستان ہووے
(ناظر جلالپوری)
ن لیگ کو یہ فکر بھی دامن گیر ہے کہ اگر پنجاب کے دو حصے ہوگئے تو پاکستان کے دیگر صوبوںپر پنجاب کی جو ایک برتری قائم ہے، وہ ختم ہوجائے گی۔ اس لئے انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کو غیر موثر کرنے کے لئے بہاول پور صوبے کی قرارداد پیش کر کےاس پورے معاملے کو متنازع بنا دیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ریاست بہاول پور کے حوالے سے بات کرتے چلیںکہ قیام پاکستان کے وقت بہاول پور ایک الگ ریاست تھی۔ 1955تک اس کی یہی حیثیت برقرار تھی۔1955میںون یونٹ کے قیام کے وقت ریاست بہاول پور کی حیثیت اس وعدے پر ختم کی گئی کہ جیسے ہی ون یونٹ ختم ہوگا، بہاول پور کی سابقہ حیثیت بحال کردی جائے گی۔ 1970میںون یونٹ ختم کردیا گیا لیکن بہاول پور ریاست کی بحالی کا وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے بہاول پور کی بحالی کا مطالبہ کیوں کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے مجوزہ22اضلاع میں بہاول نگر، بہاول پو، رحیم یار خان شامل ہیںجبکہ صوبہ بہاول پور کی بحالی کی صورت میں یہ تینوںاضلاع اس میںشامل ہوجائیںگے۔ ن لیگ کو پتہ تھا کہ اول تو قوم پرست اس کے لئے تیار نہیںہوںگے، اگر وہ کسی طور مان بھی جائیںتو پھر جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبے کے لئے ایک بار پھر نئے سرے سے ساری تیاری کرنی پڑے گی۔ اس طرح انہیں مزید وقت مل جائے گا۔ سرائیکی بیلٹکے پنجاب میں ضم ہونے سے یہ ہورہا ہے کہ سارے ترقیاتی کام صرف لاہور وغیرہ میں ہورہے ہیںجبکہ سرائیکی بیلٹ پر ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ ان خطوں میںغربت کی سطح بھی بڑھی ہے۔ سرائیکی بیلٹمیںروزگار کے مواقع بھی کم ہیں اور یہاںکے نوجوان روزگار کی تلاش میں کراچی، حیدرآباد، لاہور اور ملک کے دیگر شہروںکی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
لفظیں دے شہر والو! چپ دی وبا کوں روکو
نتاں ایہ ڈین وستیاں اجاڑ ڈیسی
یہاں یہ تاریخی حقیقت بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ’’صوبہ پنجاب‘‘ کے نام سے برصغیر کا کبھی کوئی صوبہ نہیں رہا۔ لاہور شہر کا ذکر تاریخ میںضرور ملتا ہے۔ اور لاہور شہر افغانستان کا دارالحکومت بھی رہا ہے۔ محمود غزنوی کے دور میںیہ افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ اس کو پہلی بار پنجاب کا نام سکھا شاہی دور میں دیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو پنجابی زبان کی نسبت سے پنجاب کا نام دیا اور اس کے بعد سے ہی یہ نام مشہور ہوا ہے۔ وگرنہ تاریخ کے صفحات گواہ ہیںکہ250 سال قبل پنجاب نام کا کوئی صوبہ یا خطہ موجود نہیںتھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہی اپنے توسیع پسندانہ مزاج کے تحت 1809کے بعد ملتان اور دیگر سرائیکی خطوںکو بھی جبراً پنجاب کا حصہ بنا دیا جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی پٹی سندھ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ قدیم سندھ کی تاریخ پڑھیںتو معلوم ہوگا کہ قدیم سندھ کی سرحدیں ملتان تک تھیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سرائیکی بیلٹ پنجاب کا حصہ کبھی نہیں رہی، اس کو صوبہ پنجاب سے جوڑنا قطعا ً غلط ہے۔
تحریک انصاف نے برسرِاقتدار آنے سے پہلے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے نام پر سرائیکی قوم پرستوںکی حمایت حاصل کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس وقت ’’جنوبی صوبہ محاذ‘‘ کو اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں ضم کرتے ہوئے مئی 2018 میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے 100دن کے اندر اندر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا ابتدائی کام کر لیں گے۔ گویا کہ جنوبی پنجاب میں ان کی کامیابی میں ایک بہت بڑا ہاتھ ان قوم پرستوںکا ہے، جنہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدے پر پی ٹی آئی کی حمایت کی ہے اور اس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پیر13مئی کو قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کیلئے پی ٹی آئی کے تین ارکان قومی اسمبلی مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی، سردار نصر اللہ دریشک اور پیر ظہور قریشی کی طرف سے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کیلئے پیش کی گئی تحریک منظور کر لی گئی ہے جبکہ تحریک پیش کی گئی تو ن لیگ نے اس کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ مسلم لیگ نواز دو صوبوں کا بل پہلے ہی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے اور وہ کمیٹی کو بھیجا جا چکا ہے۔ لہذا اب اس نئے بل کا کوئی جواز نہیں۔ مسلم لیگ نواز کو جنوبی پنجاب صوبے کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بہاولپور کی بات بھی سنی جائے اور بے شک وہاں ریفرنڈم کرا لیا جائے اور لوگوں کی رائے لی جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔‘‘سیاست اپنی جگہ لیکن بہرحال ایک الگ صوبہ سرائیکیوں کا حق ہے جبکہ انتظامی اور جغرافیائی طور پر اس میںکوئی مشکل بھی نہیںہے۔ اس کے علاوہ ہمارے سامنے بھارت کی مثال موجود ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت کے 17صوبے تھے، اس وقت بھارت کی29ریاستیںیا صوبے ہیں جبکہ ان کے علاوہ7ایسے علاقے ہیںجو انڈیا کے زیر انتظام ہیں۔ جب وہاں70برسوںمیں17سے29صوبے ہوسکتے ہیںتو یہاںانتظامی سطح پر مزید صوبے کیوںنہیںبن سکتے؟ اس لئے اس معاملے کو لٹکانا یا تعطل کاشکار کرنا بہتر نہیںہےقوم پرستوںکو صرف ایک بات پر اعتراض ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کی بجائے سرائیکی صوبہ بنایا جائے کیوںکہ سرائیکی صوبے کے بغیر الگ صوبے کا قیام بے معنی ہوگا۔ قوم پرستوںکی خدمت میںہم اپنی یہ ناچیز رائے پیش کرتے ہیںکہ نام تو بعد میں تبدیل کیا جاسکتاہے، جیسا کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا کیا گیا ہے۔ جب ایک صوبے کا نام تبدیل کیا گیا ہے تو اس کا مطلب کہ اب قانونی طور پر ایک نظیر موجود ہے اور اس کی بنیاد پر دیگر صوبوںکا نام بھی تبدیل ہوسکتا ہے اس لئے پہلے صوبے کے قیام پر توجہ دی جائے اور نام کا معاملہ تو بعد میں بھی حل ہوسکتا ہے۔