قدیم دور میں عورت کی حیثیت

May 22, 2019

زکریا ورک

کیا واقعی عورت ایثار کا پیکر، وفا کی دیوی، کلیوں کا حسن، گلوں کی نگہت، پھولوں کی صبا حت، شبنم کی پاکیزگی، چاند کی نرم و سبک چاندنی، ستاروں کی چمک، حسین گلوں کی نزاکت، ان سب کو ملا کر عورت کا خمیر بنا اور پھر عورت زندگی کی بہار، ویرانوں کی رونق، کاشانوں کی زینت، اندھیرے دلوں کا اجالا، پریشان زیست کا سکون بنی، بڑی بڑی جا بر ہستیوں نے اس کا لوہا مانا، اس کی عظمت و علمیت کا اعتراف کیا، پھر عورت گھروں کا سنگھار کہلائی، ، سر تا پامہر ومحبت، سلیقہ شر م و حیا کی دولت سے مالا مال عورت نے قرنوں تک اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا، ان ہی مقاصد کے لیے جیتی اور ا ن ہی کے لئے آسودہ خاک ہوئی۔

عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے بغیر عالم رنگ و بو کی رنگینیاں بے کیف، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والی،زخموں پر مرہم رکھنے والی، زیست کی الجھنوں کو سلجھانے والی ،جس کی تخلیق ہی محبت، وفا، جاں نثاری اور ہمدردی کےلئے ہوئی۔

اتنی ساری خوبیوں کے با وجود حقیقت یہ ہے کہ تاریخ عالم میں عورت پر ظلم کی داستاں بھیانک ہی نہیں درد ناک بھی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب سے چند سو سال قبل تک عورت کے ساتھ ہر قسم کاظالمانہ سلوک روا رکھا گیا ۔ دنیا کے فلاسفر اور حکماء عورت کے بارے میں کہتے تھے کہ’’عورت گلشن کائنات میں ایسے کانٹے کی مانند ہے، جس سے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے ۔

سقراط نے عورت کے متعلق کہا تھا’’ کہ عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ میں نے جس مسئلہ پر غور و فکر کیا اس کو گہرائیوں تک آسانی سے پہنچ گیا لیکن آج تک میں عورت کی فطرت کو سمجھ نہیں سکا۔‘‘

افلاطون نے کہا تھا کہ’’ سانپ ڈسنے کا علاج توموجود ہے لیکن عورت کے شر کا علاج ممکن نہیں‘‘۔ یہ سقراط اور افلاطون کی تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ قدیم یونان میں عورت کو بازاروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کیا جاتا تھا، گھر کی کمتر خادمہ سمجھا جاتا تھا۔

یونان کے بعد روم کی سلطنت میں عورت کی حالت لونڈیوں سے بھی بدتر تھی کیونکہ اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قصوروار عورت کو سزا دی جاتی تھی َ ۔

مصرمیں عورت کو غلام بنایا جاتا تھا۔ دیوتاؤں کو خوش کر نے کےلئے عورت کی قربانی دی جاتی تھی ۔

جرمنی انگلستان اور فرانس میں بھی عورت کو ایک کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔ کمزور اور بد صورت بیٹیوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا جاتا تھا ۔ عورت کومعاشرے کا بد نما داغ سمجھا جاتا تھا۔ برطانیہ کے مشہور فلاسفر ٹامس ہارڈنگ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا کہ،’’ اگر ہم دس سال تک غور کر تے رہیں تب ہی وہ عیاریاں ہمارے ذہن میں آ سکتی ہیں جو عورت ایک لمحہ میں سوچ سکتی ہے۔ عورت ایک شیطانی جادو ہے، جس کے اثر سے محفوظ رہنا دشوار ہے۔ قدیم میکسیکو میں کچھ عرصہ پہلے ایک کنواں دریافت ہؤا جس میں سورج دیوتا کے نام پر ہر سال ایک کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر دھکیل دیا جاتا تھا۔

جرمن فلاسفر نیٹشے Nietsche نے لکھا ہے’’ عورت کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ مرد کی قید میں رہے اور اس کی خدمت پر مامور رہے‘‘۔

نپولین نے کہا تھاکہ’’ عورت فطرت کی طرف سے مرد کےلئے ایک عطیہ ہے ، عورت ہماری جائیداد ہے‘‘۔

یورپ میں تین سو سال تک((1500-1800 کے عرصہ میں دو لاکھ عورتوں کو وچ ہنٹ کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیازندہ جلایا یا پھر پھانسی لگاد یا گیا۔

چین میں مرد نے عورت کو کس قدر بے بس بنا دیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ لڑکی کو بچپن میں ہی لوہے یا لکڑی کے جوتے پہنائے جاتے تھے، تا کہ اس کے قد کے ساتھ اس کے پاؤں بھی لمبے نہ ہوں۔ اس کے نتیجہ میں لڑکی جوان ہو جاتی تھی، مگر اس کے پیرچھوٹے رہ جاتے تھے۔

آج سے دو ہزار سال قبل ایران تہذیب یافتہ ملک سمجھا جاتا تھا ،مگر لڑکیوں کی پیدائش کو باعث ندامت سمجھا گیا۔ عورت تمام حقوق سے محروم تھی۔

مصر میں اگرچہ جمال عبدالناصرنے عورتوں کو ووٹ کا حق دے دیا تھا مگر گھر سے باہر جانے کےلئے عورت کو شوہر کی اجازت یا کورٹ آرڈر لینا ضروری ہوتا تھا۔ اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر چلی جاتی تواس کوگھر سے بے دخل کر دیا جاتا تھا۔ ، اس کا ذکر نجیب محفوظ نے اپنے ناول( Palace Walk ‘)میں کیا ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے شوہروں کےلئے ضروری نہیں ہوتا تھا کہ وہ پہلی بیوی کو بتائیں ۔ بعض بیویوں کو شوہر کی وفات کے وقت پتہ چلتا تھا جب جائیداد اور اثاثوں کی تقسیم کا وقت آتا تھا۔

یونانی فلسفی ارسطو کی نگاہ میں عورت کا معاشرے میں سب سے اچھا کردار بچوں کی نگہداشت کرناہےاور گھر کے کام کاج کےلئے عورت ہی زیادہ موزوں ہے‘‘۔ ارسطو نے اس لحاظ سے عورت کو مثبت رول دیا تھا۔ ارسطو کے نزدیک ایک اچھے خاندان کی بنیاد عورت ہوتی ہے۔

قدیم دور میں عورت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ جدید دور میں بھی تبدیل نہیں ہو سکا۔ نسل در نسل عورت کے متعلق رویے اتنے ہی بھیانک رہے ہیں۔ ماں کی تو بہت عزت کی جاتی، مگر بیوی کو بعض مرد جوتی کی نوک پر بھی نہیں بٹھاتے اور بلا وجہ اپنی فرسٹریشن اور غصہ بیوی پر نکالتے ہیں۔

اگر وجود زن سے کائنات میں رنگ ہے تو پھر اس ذات پر اتنا ظلم کیوں کیا جاتا ہے؟