طلب میں دبائو، ملکی اقتصادیات کو شدید مشکلات کا سامنا

May 25, 2019

اسلام آباد (طارق بٹ) پاکستان کو طلب میں دبائو کے باعث منافع میں کمی، بیروزگاری اور چھانٹیوں میں اضافے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملکی اقتصادیات کو آئی ایم ایف سے طے شدہ بیل آئوٹ پیکج میں طے شدہ شرائط کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ معروف ماہر اقتصادیات اور کالم نگار فرخ سلیم کے مطابق شرح سود بڑھنے سے شخصیات اور کمپنیوں کا منافع کم ہو جاتا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس)میں شعبہ اقتصادیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کاشف ظہیر ملک نے کہا کہ ادائیگیوں کے توازن میں خلا ختم کرنے کی کوششوں نے سنگین اقتصادی بحران کو جنم دیا۔ جب شرح نمو سکڑ کر تین فیصد اور آمدنی کم ہوجائے گی۔ مصنوعات سازی کا شعبہ گزشتہ 15سال سے ٹھیک کام نہیں کررہا لیکن اس دوران بینکنگ کے شعبے کو فروغ حاصل ہوا۔ حکومت نے بینکوں سے قرضے لئے۔ ڈاکٹر کاشف ظہیر ملک نے کہا کہ بینک حکومت کو قرضے دے کر خوش ہیں کیونکہ یہ ایک محفوظ سودا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے نجی شعبے کا بینکوں سے قرضے لینے کا تناسب 20فیصد رہا۔ فرخ سلیم کے اندازے کے مطابق حکومت 15ارب روپے یومیہ قرضے لے رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں7ارب 70کرو ڑ روپے یومیہ اور پیپلز پارٹی کے دور میں 5ارب روپے یومیہ قرضے لئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی قرضوں میں بھاری اضافے کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی غیرمعمولی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ دو ارب روپے یومیہ کے تناسب سے بڑھ رہا ہے۔