چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد!

January 24, 2013

جیسا کہ میرے قارئین جانتے ہیں کہ علامہ قادری جب سے کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے ہیں ، میں مسلسل ان کی حمایت میں لکھتا چلا آ رہا ہوں اور ان کی شخصیت اور فن پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے میں بھی میں نے کسی کوتاہی سے کام نہیں لیا لیکن مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے سارے ڈرامے کے آخری سین میں ان کا کردار پسند نہیں آیا۔ انہوں نے ڈرامے کی Sublimity کو آخری سین میں خاک میں ملا دیا۔ دھرنا ڈرامہ آنسوؤں اور قہقہوں سے لبریز تھا۔ آنکھوں میں آنسو اس وقت آتے تھے جب معصوم بچوں اور خواتین کو شدید سردی میں ٹھٹھرتے دیکھتا تھا اور کامیڈی علامہ صاحب کی سنجیدہ تقریروں میں دکھائی دیتی تھی۔ ”مبارک ہو، مبارک ہو“ والا منظر تو قہقہہ آور تھا تاہم ڈرامے کا کلائمکس بہت افسوسناک تھا، جس حکومت کو وہ برطرف کر چکے تھے ، جس کے ارکان کو وہ یزید، فرعون اور اللہ جانے کن کن خطابات سے نوازتے رہے تھے ان کی آمد پر حضرت کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ حکومتی ارکان تو انسانی صورت میں ان کے پاس آئے تھے اگر کوئی وفد حیوانی صورت میں بھی ان کے پاس آیا ہوتا تو علامہ صاحب تب بھی ان کا استقبال اسی پرتپاک طریقے سے کرتے کیونکہ جہاں جہاں سے انہیں کمک ملنے کی امید تھی ، وہاں سے انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔ ادھر جما دینے والی سردی میں دھرنا دینے والے اپنے دائیں بائیں دیکھتے تھے کہ شاید علامہ صاحب کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے لیکن یا تو وہ ”شہادت پروف“ کنٹینر میں تھے اور یا اپنے گھروں میں نرم گرم بستروں میں محو استراحت تھے، چنانچہ دھرنا دینے والے مایوسی کے عالم میں جانا شروع ہو گئے تھے۔ حکومت نے بہت اچھا کیا جو ”برطرف شدہ“ وزیر اعظم کے دستخطوں سے مزین کاغذ کا ایک ٹکڑا ان کے حوالے کرنے چلے آئے ، ورنہ علامہ صاحب اتنے DESPERATE ہو چکے تھے کہ وہ اپنے مریدوں کی جانیں بھی خطرے میں ڈال سکتے تھے۔
بہرحال میں علامہ صاحب سے بدظن ہو چکا ہوں، اب مجھے اپنے بعض دوستوں کے اس عربی مقولے ”یہ نہ دیکھو کو کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے“ کی بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ مقولہ انہیں خاص علامہ صاحب کے حوالے ہی سے کیوں یاد آ رہا ہے؟ اس سے پہلے ہمارے تمام سیاستدان، خواہ وہ کیسے ہی کردار کے حامل کیوں نہ ہوں، بہت اچھی اچھی باتیں کرتے رہے ہیں مگر یہ دوست کبھی یہ نہیں کہتے تھے کہ ان کی بات پر کان دھرو، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ان کی کھال اس بات پر کھینچتے رہے ہیں کہ ان سیاستدانوں کا قول ان کے عمل اور ان کے ماضی کے مطابق نہیں ہے۔ میرے ان دوستوں نے کبھی ابوجہل کی کوئی بات اس عربی مقولے کا سہارا لے کر بھی ”کوٹ “ نہیں کی۔ یہ خصوصی کرم صرف علامہ صاحب ہی کے حوالے سے کیوں سامنے آ رہا ہے؟
چلیں چھوڑیں ان باتوں کو، داد دیں ہماری قوم کو جس کے افراد اس طرح کی کامک (Comic) صورتحال کو اپنے فوری ردعمل سے مزید کامک بنا دیتے ہیں، سو دھرنے کے بعد سے اب تک ہر کوئی نہایت دلچسپ میسج ایک دوسرے کو بھیجے چلے جا رہا ہے اس سلسلے کے چند پیغامات مجھے بھی موصول ہوئے ہیں جو میں آپ کے ساتھ ”شیئر“ کرنا چاہتا ہوں تاہم وہ پیغامات یہاں درج کرنے سے پہلے میں علامہ صاحب سے پیشگی معذرت خواہ ہوں، امید ہے وہ ”کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا“ کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بدمزہ نہیں ہوں گے بلکہ غور بھی فرمائیں گے کہ آخر عوام ان کے حوالے سے ان لائنوں پر کیوں سوچتے ہیں؟ ان برقی پیغامات میں سے صرف دو عدد درج ذیل ہیں۔
شیخ الاسلام نے دھرنے کے دوران اپنے بم پروف کنٹینر میں کوکنگ شروع کر دی۔ کافی دیر تک خالی کڑاہی میں چمچہ ہلاتے رہے۔ میڈیا والوں نے پوچھا کیا بنا رہے ہیں، علامہ صاحب نے جواب دیا ”بے وقوف“۔
ایک انقلاب کنٹینر برائے فروخت، بہت کم چلا ہوا، ایئر کنڈیشنڈ، شیم پروف، یورپین اسٹینڈرڈ واش روم، امپورٹڈ قالین پردے اور فرنیچر، جنریٹر 50 کے وی، جلد رابطہ کریں مالک باہر جا رہا ہے۔
”ہم تم ایک کنٹینر میں بند ہوں اور انقلاب آجائے۔“
اور آخر میں ایک تازہ ترین برقی پیغام۔ طاہر القادری نے اپنے ایک اشتہاری بیان میں کہا ہے کہ ”انقلاب کنٹینر کی خریداری کے لئے اب ان سے رابطہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ یہ کنٹینر عمران خاں کو فروخت کر چکے ہیں!“
اور کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر علامہ صاحب سے معذرت اور یہ درخواست کہ وہ ان برقی پیغامات پر غور بھی کریں اور ان میں مضمر شوخی کو ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد“ کے مطابق درگزر بھی فرمائیں!