صلح جوئی اور مفاہمت میں سب کا بھلا

June 02, 2019

آہ! وزیرستان اور فاٹا کے قبائلی بھائیوںنے کیا کیا ستم ہیںکہ جو اپنے کشادہ سینوں پہ نہ سہے۔ 40 برس تک وہ مارے جاتے رہے، گھروںسے بے گھر ہوئے اور اپنی تباہ حال بستیوںکو چھوڑ کر کیمپوںیا پھر کہیںاجنبی جگہوں پہ مارے مارے پھرتے رہے۔ کبھی ’’مجاہدین‘‘ قابض ہوئے، تو کبھی تحریکِ طالبان پاکستان یا پھر طرح طرحکے دہشت گردوںکے ہاتھوںاُن پر اپنی ہی زمین تنگ کر دی گئی۔ قبائلی علاقوںپہ پاکستان کی رٹ ختم ہوئی اور وحشت ناک امارات کا قبضہ ہوا۔ یہاںتک کہ سوات و دیگر ملحقہ اضلاع بھی دہشت گردوںکے ہاتھ چڑھ گئے اور جانے پہلے جنرل ضیا الحق اور پھر جنرل مشرف کی حکمتِعملی کی کیا منطق تھی کہ پاکستان پر دہشت گردوں کا بھوت چھا گیا اور ہر طرف مارا ماری میںپاکستانی لقمۂ اجل بنتے رہے۔ جب طالبان اسلام آباد سے ساٹھ کلومیٹر دُور رہ گئے تو صدر زرداری، عوامی نیشنل پارٹی اور جنرل کیانی نے سوات سے ان بدرُوحوںکو مار بھگایا بھی اور وہاںلوگوںکو واپس بسا بھی دیا۔ لیکن ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ طالبان کی تذویراتی کھچڑی پھر بھی پکتی رہی۔ تاآنکہ، جب ریاست کو بڑا خطرہ نان اسٹیٹ ایکٹرز سے حدیںپار کر گیا تو ریاست پھر حرکت میںآئی کہ کوئی بھی ریاست اپنی عملداری یا اقتدارِاعلیٰگنوا کر ریاست کہلانے کے لائق نہیںرہتی۔ لیکن ابھی سیاسی و عسکری قیادت گومگو کے عالم میںتھی۔ اگر وزیراعظم نواز شریف مصالحت پہ مصر رہے، تو عمران خان طالبان کے دفاتر کھولنے کی دعوت دے رہے تھے۔ لیکن، جب آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوںکو سفاک دہشت گردوں نے گولیوں سے بھون ڈالا اور اُنکے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس انسان سوز کارروائی کا بڑی بے شرمی سے اعتراف بھی کر لیا (جو خیر سے اب سرکاریمہمان ہیں) تو پوری قوم اور مملکت خوابِغفلت سے جیسے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھی۔ یوں دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی کے سدباب کیلئے قومی اتفاقِرائے پیدا ہوا۔ ہماری پاک افواج نے کمال بہادری اور بھاری قربانیاںدیکر پہلے آپریشن ضرب عضب سے اُنکا صفایا کیا اور بعد ازاں اِنکی باقیات کے خاتمے کیلئے آپریشن ردّالفساد شروع کیا جو ابھی بھی جاری ہے۔

دوسری طرف چار دہائیوںسے جاری تباہی و بربادی کے ہاتھوںزخم خوردہ اور تباہ حال قبائلی بھائی بے بسی اور غریب الوطنی کے ہاتھوںضبط کا دامن کھو چکے تھے اور اُن کا کوئی پرسانِحال نہ تھا۔ بجائے اس کے کہ اُن کی داد رسی ہوتی، وہ بڑی بے بسی سے نیک محمد، گل بہادر، بیت اللہ محسود، طالبان و دیگر دہشت گردوںکے ساتھ ریاستی ’’امن معاہدوں‘‘ کو تکتے کے تکتے رہ گئے۔ اچانک پھر ایک اور واقعہ نے اُن کے ضبط کے آخری بندھن بھی توڑ دئیے۔ وہ تھا خوبرو نقیب اللہ محسود کا کراچی میںایک ماورائے عدالت پولیس مقابلے میںقتل اور وہ بھی اس کام کے ماہر رائو انوار کے مبینہ ہاتھوں سے۔ پھر کیا تھا پورے قبائلی عوام سراپا احتجاج بن گئے اور اس احتجاج میںوہ نوجوان قیادت اُبھر کر آئی جو امن و آشتی، جمہوری و انسانی حقوق اور آئین کی عملداری کے پرچم تھامے ہوئے تھی۔ یہ ایک خود رو تحریک تھی جو پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے جانی گئی۔ سچی بات ہے کہ ایک ایسے علاقے سے جو دہائیوںتک دہشت کے کلچر میںڈوبا ہوا تھا، ایک ایسی پُرامن اور مہذب تحریک کا اُبھرنا میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ یہ ایک ایسا اُبھار تھا جس میںطرح طرح کے لوگ شامل ہوتے گئے اور کچھ ایسے بھی جو جلتی پہ تیل ڈالنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن ایک آدھ اشتعال انگیز نعرے کو چھوڑ کر اس تحریک کا خمیر امن پسند اور جمہوری رہا۔ باوجودیکہ اس میںنسلیاتی خلوت کا عنصر تھا، لیکن اس نے ملک بھر کی جمہوری قوتوںاور سول سوسائٹی کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس کے مطالبات کو اُصولی طور پر جنرل باجوہ سے عمران خان تک سبھی تسلیم کر رہے تھے۔ بات چیت کے سلسلے بھی چلے، لیکن مسائل کا حل تشنہ رہا اور بے چینی ختم نہ ہوئی۔

اب سابق فاٹا کے دگرگوںحالات کو بدلنے کے لئے جو حکمتِعملی اپنائی گئی، اسکے مطابق پہلے مرحلے میںقبائلی علاقوںسے دہشت گردوںکا صفایا کیا جانا تھا جس میںہماری مسلح افواج نے بیش بہا قربانیاںدے کر کامیابی حاصل کی۔ دوسرا مرحلہ اپنے ’’پائوں جمانے‘‘ کا تھا جو بخوبی انجام کو پہنچا۔ اب تیسرا مرحلہ ہے جس میںمتاثرہ قبائل کی بحالی اور انتظام سول ہاتھوںمیںمنتقل کیا جانا ہے۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میںضم کر لیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے پہلی بار حصہ لیا اور اب صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا عمل جاری ہے اور قبائل کی نمائندگی بڑھانے کے حوالے سے ایک آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کی جا چکی ہے جسکے محرک وہ دو منتخب اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر تھے جنہیںاب سنگین الزامات میںگرفتار کر لیا گیا ہے۔ قبائلی عوام کا خیبرپختونخوا میںانضمام ایک تاریخی واقعہ تھا جسکی اس علاقے کی تاریخمیں نظیر نہیںملتی۔ کیونکہ قبائل نے ہمیشہ اپنی خودمختاری برقرار رکھی تھی۔ یقیناً اس انضمام پر افغانستان راضی نہیںکہ وہ ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو سرے سے مانتا ہی نہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ دنوںشمالی وزیرستان کی ایک فوجی چوکی پہ ہونیوالے خونریز تصادم میںدرجنوںمعصوم لوگ اور سپاہی زخمی اور بہت سے شہری شہید ہوئے۔ اس تصادم پہ صرف وہ خوش ہوں گے جو قبائلی عوام کی بھلائی نہیںچاہ رہے۔ نہ ہی یہ ریاستی حکمتِ عملی کیلئے کوئی اچھا شگون ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس جھگڑے کو سلجھا کر قبائل کی بحالی اور انضمام کی طرف جانا ہے یا مخاصمت کو بڑھا کر دشمن کے مقاصد کو پورا کرنا ہے۔ آخری تجزیئے میں صلح جوئی اور مفاہمت میںہی سب کا بھلا ہے۔