کیا وقت آگیا!

June 03, 2019

کیا وقت آگیا، ہوا کیا، ہو کیا رہا، عمل کیا، ردِعمل کیا، دو جج صاحبان کیخلاف شکایات، صدر مملکت نے ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل بھجوائے، اس پر ایسا شور، ہال دہائیاں، دھمکیاں، ڈرامے بازیاں، درفنطنیاں، خدا کی پناہ، بندہ پوچھے، کیا ججز کا احتساب نہیں ہو سکتا، کیا جج صاحبان کے خلاف ریفرنسز بھیجنا صدرِ مملکت کا غیر آئینی قدم، کیا سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار جیسے جج صاحبان پر دباؤ ڈال کر کوئی خلاف قانون کام کروا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں، پھر کیوں، اِدھر ریفرنسز کی خبریں منظر عام پر آئیں، اُدھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل استعفیٰ لکھ ماریں، مریم سے بلاول تک، (ن) لیگ سے پی پی تک، سب ایسے تڑپیں جیسے دشمن ملک نے ہماری عدلیہ پر حملہ کردیا، بلاول کی سنیں ’’حکومت جمہوریت پسند ججوں کو فارغ کرنا چاہ رہی‘‘ ماشاءاللہ، بلاول صاحب اب یہ بھی بتا دیں کون کون سے جج جمہوریت پسند، کون کون سے آمریت پسند، مریم نواز نے اوپر نیچے 5ٹویٹس جڑ دیئے، جب والد نواز شریف عدالتوں پر گولہ باری کر رہے تھے، تب مریم نواز کے 50ٹویٹس ایسے، ہر ٹویٹ کے انگ انگ سے عدلیہ کی ’ عزت افزائی‘ چھلکے، پھر مریم نواز کا وہ راولپنڈی جلسے کے دوران اسٹیج پر ترازو منگوا کر ذومعنی گفتگو کرنا، ان کے عوامی جلسوں میں لگی عوامی عدالتیں، وہ سپریم کورٹ کو پی سی او بتوں سے پاک کرنے کی للکاریں، وہ احتساب کرنے والوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی بڑھکیں، وہ نواز شریف کا فرمانا ’’ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں جو یہ فیصلے مانیں، ججز تو بغض و عناد سے بھرے بیٹھے، ملک میں ثاقب نثار کی بدترین ڈکٹیٹر شپ، ہم 5ججوں کو ووٹ کی عزت نیلام کرنے نہیں دیں گے‘‘، یہ، اس طرح کے بیسیوں بیانات، کیا بتانے، کیا دہرانے۔

کیا وقت آگیا، مسلم لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق سینیٹ میں ججز سے اظہار یکجہتی کی قرارداد پیش کر چکے، سجان اللہ، ضیاءالحق کے اس اوپننگ بیٹسمین کو تب ججز اظہار یکجہتی قرارداد پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی جب سابق صدر رفیق تارڑ نوٹوں بھرا بریف کیس لے کر کوئٹہ پہنچے تھے، جب سیف الرحمان جسٹس قیوم سے بے نظیر بھٹو کو من چاہی سزائیں دلوا رہے تھے، جب نواز شریف، لغاری لڑائی میں سپریم کورٹ ججز کو لڑایا جارہا تھا، جب قیمے والے نان کھلا کر سپریم کورٹ پر حملہ کروایا جا رہا تھا، جب نوا زشریف، مریم نواز سمیت 80فیصد لیگی رہنما ہر روز سپریم کورٹ پر چڑھائیاں کیا کرتے، جب شاہد خاقان عباسی نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ خلاف آنے پر کہا ’’جج ذہنی طور پر ڈسٹرب، میں سب کے سامنے اس پر حملہ کروں گا‘‘ اور جب بحیثیت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہے تھے، باقی زرداری صاحب، بلاول، پیپلز پارٹی نے اپنے وقتوں میں عدلیہ کا جو احترام کیا، وہ بھی سب کے سامنے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانا پسند فرما لیا مگر سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا۔

کیا وقت آگیا، کل تک نواز شریف سے آصف زرداری تک، بلاول سے مریم تک، رضاربانی سے شاہد خاقان عباسی تک، مولانا فضل الرحمٰن سے محمود اچکزئی تک، ہر جماعت، ہر رہنما یہ فرمایا کرتا، احتساب سیاستدانوں کا ہی کیوں، کچھ ادارے ’مقدس‘، احتساب سے بالاتر کیوں، جب فوج، عدلیہ کا احتساب ہوا تب مانیں گے، آج فوج خود بتا رہی، گزرے دو سالوں میں دو سو افسروں کو سزائیں دی جاچکیں، آج فوج یوں بلاامتیاز احتساب کی حامی کہ اسکا ایک سابق چیف پرویز مشرف آخری عدالتی مہلت پر، دوسرا سابق چیف اسلم بیگ سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگت رہا، ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو چکا، دوسرا سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنر ل جاوید اشرف قاضی، جنرل سعید الظفر، جنرل بٹ کے ہمراہ نیب کی پیشیاں بھگت رہا، جاسوسی پر فوج اپنے سابق کور کمانڈر جنرل جاوید اقبال کو عمر قید اور بریگیڈیئر رضوان، ڈاکٹر وسیم کو موت کی سزائیں سنا چکی، ہونا تو یہ چاہئے تھا جو فوج، عدلیہ کا احتساب چاہتے تھے، وہ اس کڑے فوجی احتساب پر تعریف کرتے، ججز ریفرنسز پر کہتے اگر الزامات لگے ہیں تو تحقیق ہونی چاہئے مگر مکاریاں، عیاریاں ایسی کہ فوجی احتساب کی تعریف، ججز ریفرنسز کی حمایت کیا، الٹا سب ایکا کرکے احتساب کی راہ میں ہی رکاوٹ بن گئے۔ یہاں یہ نکتہ بھی اہم، فوج نے تو صرف گزرے دو سالوں میں 2سو افسروں کو سزائیں دیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے کتنے ججز کو سزائیں دیں، اب تک غالباً دو ججز کو گھر بھیجا، چار یا پانچ ججز مستعفی ہوئے، پارلیمنٹ نے 70سالوں میں کتنے سیاستدانوں کا احتساب کیا، صفر بٹا صفر، میری پارلیمنٹ تو ایسی، سپریم کورٹ یہ کہہ کر نواز شریف کو نااہل کرے ’’نواز شریف نے عدلیہ، عوام کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو بھی بے وقوف بنایا‘‘، میری پارلیمنٹ نااہلی کے اگلے ہی دن نواز شریف کی اہلیت کے حق میں قرار داد منظور کر لے۔

کیا وقت آگیا، سوال سیاستدان سے ہو، سب راگ الاپیں، جمہوریت خطرے میں، معاملہ جج صاحب کا ہو، سب کہیں، یہ تو عدلیہ پر حملہ، بات ٹیکس کی ہو، تاجر سٹرکوں پر آجائیں، مطلب سب بڑے، تمام بااختیار قانون سے بالاتر، انہیں کچھ نہ کہا جائے، ملک جائے بھاڑ میں، قوانین غریبوں کیلئے ہی، کیا وقت آگیا، کہا جارہا، ریفرنسز کی ٹائمنگ، نیت ٹھیک نہیں، معاملہ سیاسی لگ رہا، کوئی یہ نہ سوچے، ریفرنسز کا فیصلہ کس کو کرنا، جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار جیسے ایماندار، جرأت مند ججز نے، آ ج کی آزاد، خودمختار سپریم کورٹ نے، لہٰذا نیت ٹھیک نہ بھی ہو، معاملہ سیاسی بھی ہو، ریفرنس کی ٹائمنگ جیسی بھی ہو، معاملہ تو جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار کے پاس، کیا ہمیں اپنی سپریم کورٹ پر اعتبار نہیں، کیا کوئی تحریک، احتجاج، یکجہتی سے پہلے سپریم جوڈیشل کی کارروائی، فیصلے کا انتظار نہیں کر لینا چاہئے۔ کیا وقت آگیا، ہر کوئی اپنی بندوق دوسرے کے کندھے پر رکھ کر چلائے جارہا، اندر اندر کھال بچاؤ، آل بچاؤ، مال بچاؤ پروگرام، اوپر اوپر جمہوریت، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی، عدلیہ کے نعرے، کیا وقت آگیا، لوگ ملک سے بڑے ہوئے، ذاتی مفادات ملکی مفادات سے مقدم ٹھہرے، کیا وقت آگیا، زاہد فخر الدین جی ابراہیم اپنے استعفے میں لکھیں ’’عدلیہ کی ساکھ ناقابل مواخذہ ہے‘‘ ان جیسا قانون دان بھی یہ بھول جائے کہ عدلیہ کی ساکھ تو ناقابل مواخذہ مگر ’عدلیہ قابلِ مواخذہ ہے‘۔