تلخی ٔایام ابھی اور بڑھے گی

June 11, 2019

تلخیٔایام ابھی اور بڑھے گی، لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور دل کی دھڑکن تیز ہوا چاہتی ہے۔ آج جب رقمطراز ہوںتو شمالی وزیرستان میںایک اور بارودی سرنگ کے دھماکے میں میرے دو جوان شہید اور تین زخمیوںکی خبر کے ساتھ اشکبار آنکھوںسے تین فوجی افسروں اور ایک جوان کو اعزاز کے ساتھ دفن کیے جانے کی خبر بھی تھی۔ گزشتہ ایک ماہ میںاس علاقہ میں سلامتی کے اداروںکے 12جوان شہید اور 38زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی علاقہ میں ایک فوجی پوسٹ پہ درجن بھر سے زیادہ معصوم شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اور انہی کے علاقے کے منتخب رہنمائوں علی وزیر اور محسن داوڑ کو گرفتار کیا گیا ہے اور نوجوانوںکے غصے کی آگ پر اور تیل ڈالا جا رہا ہے۔ اب پاک فوج کے جوان ہوںیا قبائلی نوجوان، ہیںتو اپنے ہی پھر ان میںٹکرائو کسی کے مفاد میںنہیں۔ یہ جو بارودی سرنگیںبچھائی گئی تھیں، نہیں دیکھ پاتیںکہ اُن کے ہاتھوںلقمۂ اجل بننے والا وردی میںہے یا عام قبائلی۔ بارودی سرنگیںطالبان نے بچھائی تھیںاور سرکار نے بھی، جنہیں صاف کرتے کرتے ریاست بھی نڈھال اور عوام بھی برباد ہوئے جاتے ہیں۔ ابھی اور بہت سی بارودی سرنگیںہیں جو پھٹنے کو ہیںیا پھر ہم خود ایسی بارودی سرنگیںایستادہ کرنے جا رہے ہیںتو اُنہوںنے بھی ایک روز پھٹنا ہے اور پھر جانے کیا کیا ہو، کسے خبر؟ خبر تو یہ بھی ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے 27ایکشن پلانز میں سے 18ایریا میںہماری کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے خلاف مزید موثر اقدامات پر زور دیا ہے۔ اب اس کا فیصلہ ستمبر میںہوگا کہ ہم گرے لسٹ سے باہر ہوتے ہیں یا اس میںپھنسے رہتے ہیں یا پھر بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں۔ آج ہی آپ کے ہاتھوں میں پاکستان کے 2018-2019کے اقتصادی جائزے کی ضخیم رپورٹ ہوگی اور آپ کے دل و دماغ کو بڑا دھچکا لگا چکی ہوگی۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی قومی ترقی کی نمو سال بھر میںآدھی رہ گئی ہے اور مشیرِخزانہ ٹیکنو کریٹ حفیظ شیخکے مطابق اگلے بجٹ میںمعاشی نمو بڑھانا ہدف نہیں ہے۔ مالی و مالیاتی مشکیںکسنا اصل مقصد ہے۔ تحریکِانصاف کے دو منی بجٹ آئے اور کسی افاقے کا باعث نہ بن سکے۔ صنعتی پیداوار منفی اور زراعت میںبڑھوتری ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ کپاس، گنا اور چاول کی پیداوار ہدف سے بہت کم رہیں۔ بیروزگاری، افراطِزر، مہنگائی اور کساد بازاری اس اقتصادی جائزہ کی تکلیف دہ جھلکیاںہیں۔ اور جب تین ماہ کے بعد اس جائزے کا جائزہ ہوگا تو عمومی معاشی تصویر اور بگڑی ہوئی پائی جائے گی۔ رہی سہی کسر یا کڑاکے اگلے روز کے بجٹ میںنکل جائیں گے۔ 5500ارب روپے کے ٹیکس لگیں گے، استثنائیںختم ہوںگی، ترقیاتی پروگرام کٹوتی کی نذر ہوں گے، عوام کا مزید پیٹ کاٹا جائے گا اور حقیقی اُجرتیںاور تنخواہیںبظاہر کچھ بڑھائے جانے کے قوتِخرید کم ہونے سے مزید کم ہو جائیںگی تو دیکھیے کیا رَن پڑتا ہے۔ تاجر شٹر ڈائون کریںگے، صنعتکار ہڑتالوں اور تالہ بندیوںکی جانب راغب ہوں گے، محنت کش اور نچلے ملازمین اُجرتوںکو دوگنا کرنے کے مطالبات لے کر سڑکوں پہ آئیںگے تو ’’تبدیلی‘‘ کی تبدیلی پہ ایک آفت ہے کہ ٹوٹ پڑے گی۔حالانکہ فوج اور سول حکومت ایک صفحہ پہ دکھائی پڑتے ہیں اور خیر سے تمام اہم محکمے محفوظ ٹیکنو کریٹک ہاتھوںمیںدے دیئے گئے ہیں، لیکن پھر بھی غلطیاں کرنےکا شوق ہے کہ کم ہونے کو نہیں۔ عدلیہ کا تحرک کم ہوا ہی تھا کہ جانے کیا سوجھی کہ حکومت کے اثاثہ جات کھوج نکالنے کے ایک بوالعجب نے جنرل مشرف کے نظریاتی وکیل اور وزیرِقانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل منصور خان کی معاونت سے ایک ریفرنس عدلیہ کے ایک بہت ہی معزز جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰکے خلاف دائر کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو اُکسایا اور صدرِمملکت عارف علوی نے اپنا ’’آئینی فریضہ‘‘ ادا کرتے ہوئے اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس بھیج دیا۔ لہٰذا ملک بھر کی بار کونسلوںنے علمِ مزاحمت بلند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، وزیرِقانون اور منصور خان کی نہ صرف بار کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ 14جون کو ملک بھر میںہڑتال کی کال بھی دے دی ہے۔ اب 11جون کے بعد وکلاء، تاجر، صنعتکار، کاشتکار، مزدور اور نچلے درجے کے ملازمین اپنی اپنی مانگوںکے لیے میدان میں اُتریں گے۔ پھر دیکھیے کیا گھمسان کا رَن پڑے گا کہ کوئی نہ ہوگا جو بچا لے۔

’’تبدیلی کی حکومت‘‘ تو پہلے ہی بہت سے قومی اور اہم ترین معاملات سے دستکش ہو چکی ہے۔ اب اگر عوام، وکلاء، صحافیوں، دانشوروں، محنت کشوںاور صنعتکاروںکی جائز شکایات پہ کان نہیںدھرے گی تو ’’تبدیلی آئی رے‘‘ کے بجائے کہیں’’تبدیلی بھاگی رے‘‘ نہ ہو جائے۔ بکھری ہوئی اپوزیشن بھی انگڑائیاںلے رہی ہے، اسے بنا بنایا میدان مل رہا ہے۔ لیکن وہ ابھی بھی ڈرتی ہے کہ اس لولی لنگڑی اور دُم کٹی جمہوریت کی گاڑی پھر سے کہیںپٹری سے نہ اُتر جائے، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ دس سالہ عبوری جمہوری دور کے چھکڑے کو اُلٹا دیا گیا ہے۔ غالباً ابھی اپوزیشن کا عمران خان کی حکومت کو اُلٹانے کا ارادہ نہیںکہ مشکل کا ڈھول وہ اپنے گلے میںکیوںڈالے اور خان صاحب کو پھر کنٹینر پر چڑھنے کا موقع کیوںدے۔ وہ اپنے شکار کو آہستہ آہستہ قسطوں میں تھکا تھکا کر ادھ موا کرنے کی جانب راغب ہوئی لگتی ہے، بھلے مولانا فضل الرحمٰن کیسی ہی جلدی میںہوں، اُن کی تیزی کو روکنے کے لیے شہباز شریف کی واپسی کافی ہوگی۔ اپوزیشن فی الوقت اتنا ہی چاہے گی کہ حکومت اُسے دیوار سے لگائے رکھنے کی ہٹ دھرمی چھوڑے اور وہ وفا شعار حزبِمخالف کے طور پر ’’تبدیلی‘‘ کے غبارے سے ہوا نکلتے ہوئے دیکھے۔ ایسے میں نہیں لگتا کہ عمران خان اپنی ضد چھوڑیں گے۔ اُن کے پاس حزبِاختلاف کو مطعون کرنے اور احتساب کا راگ الاپنے کے علاوہ بچا ہی کیا ہے۔ مسئلہ حکومت گرانا نہیں، نظام کو بہتر بنانا ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ تلخیٔایام ابھی اور بڑھے گی!