ڈاکٹر طاہر سے مسز طاہر تک

January 28, 2013

یہ تو تقریباً طے ہی ہوگیا ہے کہ ہمارے وطن عزیز کی اگلی وزیر اعظم، عبوری ہی سہی، محترمہ عاصمہ جہانگیر ہوں گی۔ بڑے وثوق سے میں یوں لکھ رہا ہوں کہ محترمہ، جناب زرداری کی پہلی پسند تو ہیں ہی، پردے کے پیچھے ہونے والے مذاکرات میں انہوں نے جناب نواز شریف کو بھی تیار کرلیا ہے اور اب تو یہ بلی ن لیگ کے تھیلے سے باہر آ ہی چکی ہے۔ سب کو حیرانی اس بات پر ہے کہ نواز شریف کیسے تیار ہوگئے۔ اس مشکل کام کیلئے جو دلائل انہیں دیئے گئے ان میں سب سے بھاری یہ تھا کہ محترمہ فوج کے سخت خلاف ہیں اور عدالت عالیہ سے بھی ان کی کوئی زیادہ عقیدت نہیں اس لئے وہ ڈٹ کر کسی بھی ججوں اور جرنیلوں کے مشترکہ ایجنڈے کی مخالفت کریں گی اور حکومت سے باہر جانے والی جماعتوں کی اس طرح پوری خدمت کرسکیں گی۔ علاوہ ازیں عمران خان سے بھی ان کو کوئی خاص رغبت نہیں اور دینی اور دائیں بازو کی جماعتوں کے تو وہ ویسے ہی مخالف ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی خوبیوں میں خاتون ہونا، ایک لبرل ہونا، ایک وکیل ہونا، ایک حقوق انسانی کی علمبردار ہونا، ایک باہر کی دنیا میں جانی پہچانی شخصیت ہونا اور کئی گن بھی شامل ہیں۔ سنا یہ ہے کہ جناب زرداری کے ایک مہینہ کراچی میں قیام کے دوران ان کی کئی لمبی لمبی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ گو اس طرح کی ملاقاتیں نواز شریف سے تو نہیں ہوئیں مگر میاں صاحب آج کل زرداری صاحب کی سیاست اور ان کی دور اندیشی سے بھرپور چالوں کے گرویدہ ہو چکے ہیں خاص کر جب سے عمران خان کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری میدان میں کودے ہیں سو سوچنے اور پلاننگ کا سارا کام میاں صاحب نے زرداری صاحب کے کنٹرول میں دے دیا ہے۔ ورنہ ذرا سوچئے ”کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء، گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں“ کے ناتے نواز شریف صاحب کا کیا لینا دینا ایک لبرل اور کچھ لوگوں کے مطابق ایک نئی اصطلاح آج کل چلی ہے یعنی لبرل فاسٹ، اس قسم کی محترمہ عاصمہ سے۔ مگر اب کیونکہ دباؤ یہ بڑھ رہا ہے کہ جانے والی حکومتوں کے فیصلوں اور ان کی غلطیوں اور ان کی کرپشن کا کھاتہ کھولنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ آنے والے اپنی سلیٹ صاف رکھیں، ایک ایسے وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو یہ کام نہ کرے یا جتنی ممکن ہوسکے رکاوٹیں کھڑی کرے اور اس دوران الیکشن مکمل ہو جائے اور پھر یہی پارٹیاں ادلی بدلی کرکے اہم حکومتیں سنبھال لیں۔ اس کام کیلئے عاصمہ جہانگیر کے علاوہ کون بہتر امیدوار ہوسکتا ہے۔
مگر یہ تو زرداری صاحب کی سوچ اورپلان ہے اور وہ بڑے مطمئن نظر آتے ہیں پلان B کا پتہ نہیں۔ بلاول ہاؤس کراچی کے قریب تو چڑیا پر نہیں مارسکتی مگر سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں کیڑے مکوڑے اور سانپ اور نیولے، شارک اور جھینگے بہت ہیں اور انہی میں سے ایک نے انکشاف کیا کہ صدر صاحب نے جوش خطابت میں یہ بھی فرما دیا کہ جو کام ان کی اپنی پارٹی کے ”بیوقوف“ وزیر اعظم نہیں کرسکے وہ ایک خاتون کرکے دکھائیں گی یعنی اگر ضرورت پڑی تو ملک کے سب سے بڑے قاضی کے خلاف وہ دھڑلے اور دھماکے سے جنگ کریں گی، ملک کے سپہ سالار نے اگر کوئی گڑ بڑ کی کوشش کی تو وہ ان کی نوکری سے چھٹی کردیں گی اور اگر ملک کے باقی کمی کمینوں یعنی چھوٹی موٹی سیاسی پارٹیوں نے زیادہ گڑ بڑ مچائی تو ان کو بھی ٹھیک کردیں گی کیونکہ ان کے ساتھ وکیلوں اور NGOsکی ایک فوج در موج ہوگی اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں سے بھی پوری مددملے گی اور ملک کو ایک عبوری ڈکٹیٹر کی شکل میں منتخب حکومتوں سے زیادہ پاور رکھنے والی حکومت مل جائے گی وہIMF اور ورلڈ بینک کو بھی سنبھال لیں گی اور جتنے ٹیکس اور دیگر شرائط ہوئیں وہ مان کر ملک کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کو بھی قابو کر لیں گی۔ اس طرح وہ نہ صرفPPP اور ن لیگ کی ڈوبنے والی کشتیوں کو بچا کر کنارے لے جائیں گی بلکہ کوئی چوری چکاری کا مقدمہ یا لوٹ مار کی چھان بین بھی نہیں ہوگی۔ عدالتوں کے 20 کے قریب اہم فیصلوں پر بھی کوئی عمل نہیں ہوگا اور اس طرح مسز طاہر جہانگیر سب کیلئے نعمت کا فرشتہ ثابت ہوسکیں گی۔
یہ ایجنڈا بہت دلکش لگتا ہے مگر اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جو شروع میں مطالبہ کیا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کیلئے دو اداروں یعنی فوج اور عدلیہ سے بھی مشاورت کرنا ہوگی وہ ایک طرح سے غیر ضروری تھا اور ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ وہ مطالبہ نہیں کیا وہ اس لئے کہ وزیر اعظم جب بھی بنتا ہے اور جو بھی بننا ہے اسے ملک کی سیکورٹی کی کلیئرنس لینا ضروری ہوتا ہے۔ یہ کلیئرنس فوج MI, ISI اور IB دیتی ہیں۔ اگر ایک ایجنسی بھی انکار کردے تو مشکل کھڑی ہو جاتی ہے لہٰذا ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ فوج کی مشاورت ضروری ہے دراصل غیر ضروری تھا۔ وہ تو ہر حال میں ہونی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ حسین حقانی کی کلیئرنس نہیں ہوئی مگر وہ وزیر اعظم کے عہدہ پر نہیں آ رہے تھے اسی طرح عدالتوں سے مشاورت بھی مانگنا غیر ضروری تھا کیونکہ عدالتوں میں کوئی بھی ایک درخواست ڈال دے تو عدالت ایک پارٹی بن جاتی ہے اور اپنی رائے دے سکتی ہے۔ اب ان دو مرحلوں سے محترمہ عاصمہ کا گزرنا پل صراط پار کرنے کے برابر ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا مک مکاتو ہوسکتا ہے مگر باقی پل کیسے طے ہوں گے۔ عمران خان کی پارٹی کے سوشل میڈیا کے ماہر تو ابھی سے محترمہ عاصمہ کی وہ تصویریں دنیا بھر کو دکھا رہے ہیں جن میں وہ بال ٹھاکرے کے ساتھ نارنجی رنگ کے لباس میں جو شیوسینا کا رنگ ہے، بیٹھی ہیں۔ یہ تصاویر جب وہ بھارت گئی تھیں تو تب منظر عام پر آئیں تھیں۔ اس طرح دینی جماعتوں نے اور خاص کر انتہا پسند فرقوں اور تنظیموں نے یہ مسئلہ بھی اٹھانا شروع کردیا ہے کہ ان کے شوہر جناب طاہر جہانگیر جن کو میں 80 کی دہائی سے جانتا ہوں اور ان کی بیٹی امریکہ میں امریکہ والوں سے بہت ہی گھل مل گئی ہیں۔ یہ سب ذاتی باتیں بیکار اور گری ہوئی ہیں مگر ہمارے ماحول میں ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت اس لئے دی جاتی ہے کہ حکومتیں اور لیڈر اپنے کام میں کمزور اور چوری چکاری میں شہ زور ہوتے ہیں اور ان کی کوئی عزت یا کریڈیبلیٹی نہیں ہوتی لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ عاصمہ کا تعین نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ ملک کو اور تباہی کے کنارے لے جائے گا۔ ذرا سوچئے عاصمہ وزیر اعظم بن جاتی ہیں اور حلف اٹھانے کے بعد عدالت عالیہ ان سے کہتی ہے کہ جو ان کے فیصلے پہلے سے عملدرآمد کے انتظار میں ہیں ان پر عمل کیا جائے اور وہ انکار کردیتی ہیں تو کیا ہوگا۔ پہلے ہی ہفتے حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی شروع ہوگی اگر سیاسی پارٹیوں اورمیڈیا کی طرف سے یہ مطالبہ آیا کہ بڑے بڑے چوروں کو پکڑا جائے اور انہیں بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے اور اگر عاصمہ انکار کرتی ہیں تو وہ بھی چوروں کو بچانے والوں کی لائن میں آکھڑی ہوں گی۔ اگر انہوں نے فخرو بھائی کو آزادانہ کام کرنے سے روکا تو خود الیکشن بھی مشکوک ہوسکتے ہیں مگر یہ سب کوئی نہیں سوچ رہا۔ نئی بساط پر نئے مہرے تیار ہیں اور ہمارے ایک سابق سفیر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگلے15 دن بعد دیکھنا میں کیسے سین پر واپس آتا ہوں، چاہے ایک دن کیلئے سہی قومی سلامتی کا مشیر ضرور بنوں گا۔ ماشاء اللہ!! میمو کیس تو ابھی شروع ہوا ہے اور عاصمہ ان کی وکیل ہیں۔