استقامت کو تیری سلام

January 29, 2013

امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی دوسری تقریب حلف برداری کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ دنیا سے جنگوں کا عشرہ ختم ہوچکا ہے۔چند روز قبل بھی امریکی صدر نے ایک تقریب میں واضح طور پر کہاتھاکہ اگلے برس2014ء کے آخر تک افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسز کا مکمل انخلاء ہوجائے گا۔”بدلتاہے رنگ آسمان کیسے کیسے“ کے مصداق امریکیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ عراق کے بعد اب افغانستان سے بھی اس کی”رخصتی“ کا وقت قریب آگیا ہے۔ امریکہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے نکلنے کے لئے ”محفوظ واپسی“کو یقینی بناناچاہتا ہے۔ تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ افغانستان کے نہتے اور غیور مجاہدین نے وقت کی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ اب تو پاکستانی حکومت نے بھی امریکہ کی ہدایت پر یہ عندیہ دے دیا ہے کہ افغان طالبان قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کردیا جائے گا۔ اس فیصلہ کن موڑ پر جب کہ امریکہ افغانستان سے اپنی تمام تر فرعونیت کے باوجود الٹے پاؤں واپس ہورہا ہے، پاکستان کی سول اور فوجی قیادت پر کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی حالات پر توجہ دیں۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی سمیت پورے ملک میں امن و امان کا قیام ہماری اولین اور بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔افغانستان سے اگلے سال تک امریکی و نیٹو فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء بھارت کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں ہوگا۔ بھارت افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے وزیر داخلہ رحمن ملک بھی کئی بار کہہ چکے ہیں افسوس صد افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت اور امریکی تنظیم بلیک واٹر کے ملوث ہونے کے باوجود پاکستان اپنا یہ مقدمہ عالمی سطح پر پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھارت اور امریکہ کے اس گٹھ جوڑ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہئے۔ امریکہ افغانستان میں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔ نڈر،جرأت مند اور غیور افغانی مسلمانوں نے”امریکی عزائم“خاک میں ملا دیئے ہیں۔
پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو امریکہ کی افغانستان سے ”رخصتی“ کے حوالے سے اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ ریمنڈڈیوس نیٹ ورک، امریکی تنظیم بلیک واٹر اور بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ کے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں جاری آگ وخون کے کھیل کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔آئندہ بروقت الیکشن کے ذریعے تمام سیاسی اکائیوں کو اعتماد میں لے کر موجودہ دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکزی کردار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پولیس کی طرف سے”ایٹمی جنگ“کے حوالے سے شائع ہونے والے اشتہارات سے بھارت کی پاکستان کے خلاف منفی اور گھٹیا ذہیت کااندازہ ہوتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کوجنرل(ر) پرویز مشرف نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نام نہاد ”امریکی جنگ“ میں پھنسا دیا۔ بھارت نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ”تحریک آزادی کشمیر“کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن وہ اپنے مکروہ اور گھناؤنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکا۔ نہ تو وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیر جہاد کو ختم کرسکا اور نہ کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کوکم کرسکا ہے۔
اس اہم اور نازک موڑ پر جب امریکہ افغانستان سے اپنا”بوریا بستر“سمیٹ رہا ہے حکومت پاکستان اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ امت مسلمہ کی بیٹی اور پاکستانی قوم کی عزت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے رہائی دلوائیں اور پاکستان واپس لایا جائے۔ مظلوم اور بے گناہ حافظہ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی جس نے قرآن کو اپنے دل میں بسایا اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹی سے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی امتیازی ڈگری حاصل کی تاکہ قرآن کی رہنمائی میں جہالت کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دے مگر ملک و قوم کے دشمنوں نے خود عافیہ صدیقی کو ہی ظلم و جبر کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پہلے کراچی سے اغوا کرکے افغانستان پہنچایا گیا جہاں اسے ہولناک مظالم کاسامنا کرنا پڑا تاہم نو مسلم برطانوی صحافی”ایوان ریڈلے“ کے انکشاف پر کہ بگرام (افغانستان) میں امریکی فوجیوں کے ظلم کا شکار قیدی نمبر650ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ منتقل کر دیا گیاجہاں ایک بار پھر بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیااور انصاف کے نام پر تماشا لگاکر اسے86سال کی سزا سنا دی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی عدالتی سطح پر تسلیم کیا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ کا کسی بھی دہشت گرد گروپ سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ ڈاکٹر عافیہ کو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بے حد دکھ اور افسوس تھا۔ عافیہ صدیقی نے بوسنیا کی مظلوم عورتوں اور بچوں کے لئے تن تنہا ہزاروں ڈالر جمع کئے جو کسی طالبہ کی جانب سے فنڈ جمع کرنے کا عالمی ریکارڈ تھا۔ انہوں نے کشمیر کے مسلمانوں کے لئے بھی لاکھوں روپے جمع کئے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے وطن پاکستان سے بے حد محبت کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے انہیں متعدد بار شہریت دیئے جانے کی پیشکش کے باوجود انہوں نے اپنے پاکستانی مسلمان ہونے پر فخر کیا اور امریکی شہریت قبول نہیں کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت امریکیFBIکوکھٹکنے لگی۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کے ناقص نظام تعلیم کو مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتی ہیں، ان کے نزدیک ہمارے نظام تعلیم میں اسلامیات بحیثیت مضمون نہیں بلکہ ہر مضمون کا لازمی جزو ہونا چاہئے اور اسلام ہی پاکستان کی بنیاد ہے اور یہی پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اور اسلام سے اس قدر محبت کرنے والی پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کیونکر امریکہ اور مغربی این جی اوز سرآنکھوں پر بٹھائیں گے۔(جاری ہے)