کیا اس طرح انتخابات منصفانہ اور وقت پر ہوں گے؟

January 29, 2013

پنجاب میں بہاولپور جنوبی پنجاب کے شترگربہ نام سے ایک نئے صوبے کی تجویز پر ہنگامہ گربہ موجودہ گورنروں کی جگہ غیر جانبدار گورنروں کے تقرر کا مطالبہ، عام انتخابات 60دن یا 90دن میں کرانے کی بحث اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں تبدیل کرنے کی سازش درحقیقت عوام سے چھپ چھپا کر آئین میں 18ویں، 19ویں،20ویں ترامیم کا منطقی شاخسانہ ہے مگر کسی میں یہ اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ یہ ترامیم تجویزکرنے والی پارلیمانی کمیٹی اور منظوری دینے والی لولی لنگڑی، گونگی، بہری پارلیمینٹ کا گریبان پکڑے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
آئین میں 90دن کی نگرانی حکومت کو 60دن میں تبدیل کرنے کا اس کے سوا کیا مقصد تھا کہ پانچ سال تک سرکاری وسائل سے اپنی انتخابی مہم چلانے والے ارکان اسمبلی اور باری کے انتظار میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو امیدواروں کی سکروٹنی، نوزائیدہ جماعتوں اور بے وسیلہ امیدواروں کی انتخابی مہم اور عوامی سطح پر احتساب کے بغیر جلد از جلد دوبارہ ایوانوں میں پہنچنے کا موقع مل جائے اور دھن، دھونس، دھاندلی کا یہ عوام دشمن نظام اور سٹیٹس کو کا محافظ انتظام و انصرام بہ حسن خوبی چلتا رہے۔ ورنہ 90دن کی پابندی ختم کرنے کا کوئی دوسرا جواز نظر نہیں آتا۔ 45دن میں الیکشن کرانے کی وجہ بھی یہی ہے کیا امیدواروں کی سکروٹنی اور انتخابی (نگران) وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے تقرر میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی مشاورت کو ضروری قرار دیتے وقت کسی کو یاد نہ رہا کہ صوبوں میں گورنر بھی ہوتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کے استعفے ٰ کا مطالبہ کرنے والوں کی مخالفت اور ان کے نامزد گورنروں کی سبکدوشی پر اصرار؟ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ مگر یہی مطالبہ جب الیکشن کمیشن کے ارکان کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری کرتے ہیں تو اسے غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 213(A2)کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اور جس طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے 28کے قریب ضمنی انتخابات کوغیر قانونی قرار دیدیا تھا اسی طرح پارلیمانی کمیٹی کی جانچ پڑتال اور تین میں سے کسی ایک نام کی توثیق کے بغیر ان ارکان کا تقرر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے مگر صرف سیاسی مخالفت کی بنا پر اس جائز مطالبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا اور الیکشن کمیشن کے اختیارات بڑھانے کے لئے طاہر القادری کی نقل میں دھرنے کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کے نام پر تعلیم کا اہم ترین شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا، اس مرحلہ پر نصاب تعلیم کے بارے میں سوچا گیا نہ نظریاتی وحدت، میڈیم آف انسٹرکشن اور معیار تعلیم کا کسی کو خیال آیا اور نہ پرائمری سکول، نہ چلا سکنے والی صوبائی حکومتوں کی استعداد و صلاحیت پر غور کیا گیا۔ خدا نہ کرے کہ ملکی جامعات کا بھی وہی حشر ہو جو سرکاری شعبے میں کام کرنے والے کالجوں کا ہے۔ موجودہ انتظام کے بعد یونیورسٹیوں کا جو حال ہے وہ فاضل وائس چانسلر صاحبان بتا سکتے ہیں یا پھر پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے معطل سربراہ ڈاکٹر احسن اختر ناز جن پر مکروہ الزام کی تردید ان کی بدترین مخالف ، ڈاکٹر عفیرہ حامد کو کرنا پڑی جو اس خاتون کی اخلاقی عظمت کا ثبوت ہے۔
کل کلاں کو خدانخواستہ اگر خیبر پختونحوا کے نصاب تعلیم میں خان عبد الولی خان مرحوم کی کتاب Fact are Factsشامل کر لیاجائے جس میں قائداعظم اور قیام پاکستان کے بارے میں گوہر افشانی کی گئی ہے، 1946ء کے ریفرنڈم کو فراڈ قرار دیدیا جائے جس میں صوبہ سرحد کے عوام نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیاتو اٹھارہویں آئینی ترمیم پر دستخط کرنے والوں میں سے کس کو مجال سخن ہوگی؟ جب نصاب تعلیم، مالیاتی وسائل اور جامعات کا انتظام صوبوں کے سپرد ہوچکا تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے وفاقی حکومت جو سلوک کرے اس کی مرضی۔ ہم آپ اعتراض کرنے والے کون؟
ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ ان آئینی ترامیم کے وقت طے کیا جا سکتا تھا، ہزارہ اور سرائیکی وسیب کے لوگ چیختے چلاتے رہے مگر پارلیمانی کمیٹی کے کان بند رہے اور سرائیکی وسیب سے ارکان پارلیمینٹ گونگے شیطان بن گئے۔ یہ مسئلہ لا ینحل رہا مگر اب جبکہ الیکشن سر پر ہیں اور ووٹ بٹورنے کا جنون ہر جاگیردار، وڈیرے اور عوام کے دل و دماغ پر سوار ہے۔ بہاولپور جنوبی پنجاب (بی جے پی) کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے جس کے خلاف بہاولپور، میانوالی، بھکر، ساہیوال اور خانپور میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور دیگر شہروں میں ان کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ سرائیکی صوبے کے حامی اور بہاولپور صوبے کے علمبردار دونوں پریشان ہیں کہ صدر آصف علی زرداری آخر ہمیں کیوں بے وقوف بنا رہے ہیں ، صوبہ نہیں۔
اگر سرائیکی وسیب جنوبی پنجاب ہی کہلاتا ہے تو آخر پنجاب کے لفظ میں کیا برائی ہے اگر میانوالی، ساہیوال کے لوگوں کو کوسوں دور بہاولپور جاکر اپنے مسائل حل کرانے ہیں تو لاہور سے ناطہ توڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں؟ شریف برادران کو بیک فٹ پر لانے کی اس احمقانہ سیاسی چال کو سرائیکی عوام اپنے ساتھ بدترین مذاق سمجھ رہے ہیں مگر مخدوم، جاگیردار اور وڈیرے ایم کیو ایم اور اے این پی سے مل کر صدر آصف علی زرداری کو باور کرانے میں مصروف ہیں کہ اس لولی پاپ سے سرائیکی وسیب کے پیرپرست، مرنجان مرنج، سادہ لوح لوگ بہل جائیں گے اور ہم کامران لوٹیں گے۔
ملک کو ضرورت اس وقت اتفاق رائے، اتحاد و یگانگت اور آئینی ترامیم کے دوران کی گئی غلطیاں سدھارنے کی ہے مگر پیدا ملک بھر میں ہیجان، اضطراب اور اشتعال کیا جا رہا ہے۔ انتخابی اصلاحات سے گریز اور نت نئے شوشے چھوڑنے کی اس روشنی نے نوجوان نسل کو سیاستدانوں کی پرانی نسل سے بیزار کر دیا ہے اور انتشار، افراتفری، انارکی کی کیفیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پھر بھی دعویٰ ہے کہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے، ملک مستحکم اور عام انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی؟ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں :
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو