محمداسے وفا...انداز بیاں

January 29, 2013

اردو زبان بھی کیا خوش قسمت زبان ہے۔ اس زبان کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ عربی زبان کے بعد یہ اردو زبان ہے کہ جس میں تفسیر، حدیث، سیرت و اسلامی تاریخ کا ایک وسیع ذخیرہ منتقل ہوا ہے۔ عربی زبان کے علاوہ فارسی اور دیگر مشہور زبانوں میں موجود علمی ذخیرے کو اردو زبان نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ مجھے تو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ میرے محدود علم اورمطالعہ کی روشنی میں یہ دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کے خواندہ عوام اردو لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں۔ ہندوستان وہ میرا ”مسلم ہندوستان“ جو میرے خوابوں کے جزیروں میں بستا اور یادوں کی کہکشاں آباد رکھتا ہے کبھی اردو زبان و ادب کا گہوارہ تھا لیکن اب اردو کو وہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ بولتے اردو ہیں لیکن اس بھی ہندی کہتے ہیں کیونکہ اسے سنسکرت رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ اس طرح اردو کا تلفظ اور اس کی شناخت اس دھرتی سے مٹ جائیگی جہاں میر تقی میر نے نوک قلم سے شاہکار اردو لکھی تھی کہ جس کو پڑھ کر اسد اللہ خان غالب جیسا آدمی کہنے پر مجبور ہوا تھا ”سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا“ غالب اور اقبال اردو ادب کے وہ بنیادی ستون ہیں جن کے سہارے اردو قائم و دائم ہے۔ لیکن زبان و بیان کے معیار کے علاوہ جس چیز نے اقبال کو اپنے عہد کے تمام شعراء ہی نہیں بلکہ اپنے سے پہلے اردو شعراء اور آنے والی صدیوں کے شعراء سے ممتاز، منفرد، بلند اور محترم و معزز بنا دیا ہے وہ اس کا عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے، عشق رسول تو ایسا آب حیات ہے جو خش لکڑی کے ایک تنے کو جسے اسلامی تاریخ استن حنانہ کے نام سے جانتی ہے زندگی اور حرات عطا کر دیتاہے۔ اقبال تو پھر ایک جیتا جاگتا انسان اور دھڑکتے دل سوچتی فکر و روح اور مضطرب قلب و نظر کی مالک شخصیت تھا۔ اسے عشق رسول کیسے زندہ و تابندہ نہ کردیتا۔ آپ اسلامی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے! آپ کو وہی محدث، وہی مفسر، وہی مورخ، وہی مدرس، وہی مفکر، وہی مزکی، وہی مجاہد، وہی مناظر، تاریخ کے صفحوں اور لوگوں کے دلوں میں زندہ اور دھڑکتا ہوا ملے گا۔ جس کے فکر و نظر کے شجر کی آبیاری عشق رسول کے حیات افروز سرچشمہ سے ہوئی، سید ابوالحسن علی ندوی جیسے شہرہ آفاق مصنف اور مورخ نے ایک مرحلہ پر کہا تھا کہ وہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے خطے میں اقبال جیسا ایک عظیم مفکر اور مصلح بھی پیدا ہوا تھا ۔ اور ایک عظیم پیغام دے گیا تھا۔ یہ فقیر کہتا ہے کہ وہ کیا پیغام تھا جس نے اقبال کو رہتی دنیا تک زندہ و جادوید کردیا ہے۔ وہ پیغام اس کے شکوہ و جواب شکوہ میں سمٹ کر یکجا ہوگیا ہے۔ اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں شکوہ کرنے کی جسارت اقبال جیسا کوئی باادب اور بے باک شخص ہی کرسکتا تھا اور کہہ سکتا تھا:
”شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو“
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں اقبال خوبصورت اور مترنم آواز میں اپنا کلام پڑھا کرتے تھے۔ ہزاروں کا مجمع دم بخود ہوکر کلام شاعر بزبان شاعر سنتا تھا اور سراہتا تھا۔ ایک دن جب اس نے شکوہ سنایا تو سب حیرت سے اس کو دیکھنے لگے کہ یہ کیا جسارت کر دی۔ لیکن جب ایک اگلی نشست میں اس نے اپنے تخیل کی بنیاد پر الہامی طور پر اللہ رب اللعالمین کی بارگاہ سے آنے والا جواب شکوہ سنایا تو سامعین کی چیخیں نکل گئیں۔ خود اقبال کی ہچکیاں بندھ ہوگئیں۔ سانس اُکھڑنے لگا اور آنکھوں سے رم جھم آنسوؤں کی برسات شروع ہوگئی۔ اقبال روتا بھی جاتا تھا اور رلاتا بھی جاتا تھا۔ یہاں پہنچ کر تو وہ اپنے فکر و فن کی معراج پر نظر آتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
ہو نہ یہ ساقی تو پھرمے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزم دنیا بھی نہ ہو میں بھی نہ ہوں تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اور پھر آخر میں خدائے قدوس ولم یزل کی بارگاہ میں حمدیت ہے یہ پیغام لاتا ہے اور جواب شکوہ ختم کرتا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج تک اس شعر کو مقبولیت حاصل ہے میلاد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے منعقد ہونے والی محافل وعظ میں جلوسوں میں، جلسوں میں، سمینارز میں محافل نعت میں غرض جگہ جگہ یہ شعر پڑھا جاتا ہے اور آج بھی عاشقان مصطفےٰ کے قلوب و اذہان کو جگمگاتا اور منور کرتا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا سننے والے کبھی اس نکتے پر بھی غور کرتے ہیں کہ یہ محمد سے وفا کیا ہے جس کا حکم اقبال کے تصور و تخیل کے مطابق اللہ رب اللعالمین دے رہا ہے۔
یہ دراصل آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام، آپ کی سیرت طیبہ اور آپ کی حیات مبارکہ کی روشنی میں آپ کے فرامین اور احکامات سے وفا ہے۔ یہ کیسی وفا ہے کہ حلال گوشت کے نام پر گدھوں، گھوڑوں اور مردار جانوروں کا گوشت مسلمانوں کو اسلامی جمہوریہ کے ٹائٹل والے ملک میں کھلایا جائے اور کی محمد سے وفا کے شعر پر بھی جھوما جارہا ہے۔ یہ کیسی وفا ہے۔ خالص گھی کے نام پر حلال و حرام ہر طرح کے جانوروں کی چربی ملائی جارہی ہے۔ اور بیچا جارہاہے یہ کیسی وفا ہے کہ خالص دودھ کے نام پر مضر صحت اشیاء اور اجزاء کیمیکلز اور زہریلا مواد پلایا جارہا ہے اور دکانوں پر کی محمد سے وفا والا شعر بھی لکھ کر سجایا ہوا ہے۔ یہ کیسی وفا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا تاجر، سرمایہ دار، صنعت کار اور سیاست دان والا ماشاء الہ خریداروں، مزدوروں اور محنت کشوں اور عوام کا استحصال بھی کر رہا ہے، انہیں بے دردی سے دونوں ہاتھوں سے لوٹ بھی رہا ہے اور اپنے ضمیر کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے محفل نعت کو سپانسر بھی کر رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ اس نے عشق رسول کے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ یہ کیسی وفا ہے کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کو ہمارا واعظ ہمارا خطیب ہمارا مقرر ہمارا نعت خواں اس شعر کو پرھ بھی رہا ہے لیکن امت محمدی کو جہالت غربت ذلت اور بیماریوں میں مبتلا کرنے والوں کے خلاف آواز حق بلند کرنے اور محمد سے وفا کرنے کے تقاضے پورا نہیں کر رہا۔ یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سرمایہ پرستی کا سفینہ نہیں ڈوبے گا، اقبال نے کہا تھا:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات