صرف نمبرزٹانکنے کے لیے

January 29, 2013

26،27 اور28سالہ تینوں دوستوں نے اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا تھا، وہ اپنے نئے آئیڈیے پر پوری طرح کام کرنا چاہتے تھے ۔انہیں ایک ایساآفس درکار تھا جو وسعت کے ساتھ ساتھ ان کے بجٹ کے مطابق بھی ہو ۔انہیں کیلی فورنیا کے علاقے سان ماتیو(san mateo)میں ایک ایسی عمارت میں آفس ملاجو پیزا اور ایک جاپانی ریسٹورنٹ کے اوپر تھا جو کھانوں کی مہک،دھوئیں اور دیگر کئی مشکلات کی وجہ سے آئیڈیل جگہ نہیں تھی ۔تینوں دوست ایک طویل بحث کے بعد اس جگہ کو اپنا دفتر بنانے پر رضا مند ہو گئے، ان تینوں دوستوں کا نام جاوید کریم جو بنگلہ دیشی نثرادجرمن تھا، سٹیوچن تائیوانی نژادامریکن اور چاڈ ہرلی امریکن تھا ۔ یہ تینوںpay palنامی کمپنی میں کام کرتے تھے کہ 2005کے اوائل میں انہوں نے ایک وڈیو شیرنگ کی، ویب سایئٹ بنانے کا فیصلہ کیا اس فیصلہ نے اس وقت جنم لیا جب سٹیوچن کے سان فرانسسکوکے اپارٹمنٹ میں چاڈ ہر لی کے ہمراہ ایک ڈنر پارٹی منعقد کی تو انکا دوست جاوید کریم یہ ڈنر پارٹی اٹینڈنہ کر سکا ان دونوں دوستوں کی خواہش تھی کہ وہ اس پارٹی کی شان شوکت اور خوشگوار لحمات اپنے دوست جاوید کریم سے شیئر کریں، بس یہیں سے یوٹیوب کے آئیڈیانے جنم لیا اور تینوں دوستوں نے ابتدائی کام کر کے ایک انویسٹمنٹ کمپنی سے رابطہ کیا جس کا نام(sequoia capital)تھا، امریکہ میں عرف عام میں ایسے اداروں کو اینجلزانویسٹرز کہتے ہیں جو کسی بھی آئیڈیاکو پر کھنے کے بعد اس میں انویسٹمنٹ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس ادارے نے تینوں دوستوں کو جو بزنس پارٹنرز بھی تھے ابتدائی طور پر 35لاکھ امریکن ڈالرز اور بعد میں 80لاکھ امریکن ڈالر دیے۔ ان دوستوں کا خیال تھا کہ یہ ویب سائیٹ ان ایمچور لو گوں میں اور بھی مقبولیت حاصل کرے گی جو وڈیو تو بناتے ہیں لیکن کسی بھی وجہ سے وہ کسی ٹی وی چینل پر نہیں دکھائی جا سکتی ۔لیکن انہیں یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کی بنائی ہوئی سا ئیٹ انہیں ارب پتی بنا دے گی۔ 23اپریل2005کو یو ٹیوب پر پہلی ویڈیو می ایٹ دی زو( me at the zoo) اپ لو ڈ کی گی ۔یہ ویڈیو اسکے بانی پارٹنر جاوید کریم کی بنائی ہوئی تھی جولائی 2006 میں اس کمپنی نے اعلان کیا یو ٹیوب پر روزانہ65ہزار نئی ویڈیو ز اپ لو ڈ کی جاتی ہیں اوران ویڈیو کو دیکھنے کے بعد روزانہ دس کروڑدیکھنے والے ان ویڈیوز کے ساتھ اپنے ریمارکس تحریرکر تے ہیں اور اب ہر منٹ میں 60گھنٹے دورانیے کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں، دنیا بھر میں جتنی بھی ویڈیوزدیکھی جاتی ہیں، ان میں 63فصد یو ٹیوب کاحصہ ہو تا ہے۔ صرف مئی 2010میں 14ارب ویڈیو زیوٹیوب پر دیکھں گئیں ۔یو ٹیوب کی مقبولیت کی وجہ سے اس کا شماراب گوگل اور فیس بک کے بعد تیسری بڑی سائیٹ میں ہو تا ہے۔ یو ٹیوب کی مقبولیت کی وجہ سے گو گل نے 1.65بلین امریکی ڈالر کے عو ض اسے خرید لیا ہے اس یو ٹیوب کو دیکھنے والوں میں موسیقی کے دل دادہ بھی ہیں۔سیکس کا پرچار کرتے ہوئے بے ہودہ منا ظر بھی ہیں اور علم کی شمع روشن کرتے ہوئے لیکچرز بھی ہیں، مذاہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑا تے شر پسندوں کی شرارتیں بھی سچائی اور حق کا بول بالاکرنے والی حکایتیں بھی ہیں، شیطان کی شرارتیں پھیلانے والی مکروہ باتوں کے مناظر بھی ہیں تو دل میں اتر جانے والے دین اسلام کی باتیں کرتے عالم دین کے وعظ بھی ہیں غرضیکہ یہ ایک ایسا سمندر ہے جسے کے اندر موتی بھی ہیں غذائیت سے بھر پور مچھلیاں بھی ہیں جل پری کی کہانیاں بھی ہیں اور انسان دوست ڈولفن کی طرح دوست بھی ۔ہڑپ کرتی دیو ہیکل
شارپ اور چیر پھاڑ کرتے مگر مچھ بھی ۔ہوا کی دوش پر چلتی کشتیاں اور بڑے بڑے بحر ی جہاز بھی ۔ روشنی کے ذریعے رہنمائی کرنے والے مینار بھی ہیں اور لو ٹنے والے بحری قزّاق بھی ہیں ۔اب یہ آپ پر منحصرہے کہ کس راستے پر چلتے ہیں یا اس سمندر سے کیا حاصل کر نا چاہتے ہیں حکومت نے یو ٹیوب کو بند کر کے ایک ایسے سمندر کو روکنے کی کوشش کی ہے جہاں سے روزانہ لاکھوں علم کے پیاسے سیراب ہوتے تھے ۔کتنے لوگ سچ کو جانتے تھے اور ان لیڈروں کے بارے میں حقائق جانتے تھے جو حقیقت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن جھوٹ سے قد کو بڑا کرنا چاہتے ہیں۔ یو ٹیوب سعودی عرب سمیت کسی اسلامی ملک میں بند نہیں ہے لیکن ہماری حکومت نے صرف نمبرز ٹانکنے کیلے اسے بند کر رکھاہے۔۔۔۔۔۔