’بارٹل فرئیر‘ کراچی کی تعمیر و ترقی میں ان کا اہم کردار ہے

June 27, 2019

کراچی کو نیا روپ دینے والے ’بھوجو مل‘ نے 1763ء میں یہ جہاں چھوڑا۔ 1784ء میں کلہوڑوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور تالپوروں نے تخت پر ’میر فتح علی خان‘ کو بٹھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی پر خان آف قلات کی حکمرانی تھی اور خان کی طرف سے گورنر مقرر کیے جاتے تھے، مگر وہ سارے محض نام کے ہی گورنر ہوتے تھے کیونکہ اصل حکومت یہاں کے بیوپاری، بھوجومل کے بیٹے دریانو مل اور اس کے بھائیوں کی تھی۔تالپوروں نے مسلسل یہ کوشش جاری رکھی کہ کراچی ان کے دائرہ اختیار میں ہو۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 3 بار حملے کیے۔ پہلے بار 1772ء میں، دوسری بار 1793ء میں اور تیسری بار 20 ہزار فوج کے ساتھ 1794ء میں حملہ کیا۔ کراچی کے قلعہ کا 3 ماہ تک گھراؤ کیا گیا۔ خان آف قلات نے اپنی طرف سے کوئی مدد نہیں کی اور اس طرح کراچی میروں کے حوالہ ہوا۔

سیٹھ ناؤنمل لکھتے ہیں کہ ’1794ء مطابق بھادوں کی 11 تاریخ، بدھ کے دن، سیٹھ دریانومل نے کراچی شہر کے دونوں دروازوں (میٹھا اور کھارادر) کی چابیاں، میر فتح علی خان کے فوجی کمانڈروں ’میاں فقیرو‘ اور ’میاں پالیا‘ کے حوالہ کیں۔ میروں نے سمندری حملے سے بچاؤ کے لیے منوڑے کی پہاڑیوں پر ایک قلعے کی تعمیر کروائی اور بندر کے تحفظ کے لیے پہرے دار مقرر کیے۔ اس قلعہ کی تعمیر 1799ء میں مکمل ہوئی۔24 ستمبر 1799ء میں کراچی میں قائم، کمپنی کی بیوپاری کوٹھی پر کمپنی کا جھنڈا لگا کر کوٹھی کا افتتاح کیا گیا، مگر 1800ء میں حالات انگریزوں کے سخت خلاف ہوگئے۔ ’مسٹر ناتھن کرو‘ کے وقت میں کراچی اور ٹھٹہ والی بیوپاری کوٹھیوں کو بند کردیا گیا۔

1832ء میں انگریزوں کے تحریر کیے گئے عہدنامے پر تالپوروں نے دستخط کیے تو دریائے سندھ پر جہاز رانی کی اجازت گوری سرکار کو حاصل ہوگئی۔1836ء میں ایک اور معاہدہ ہوا ،جس میں دریائے سندھ کے کناروں پر اُگے ہوئے جنگلات سے آگبوٹوں کے لیے لکڑی فراہم کرنا میروں پر فرض ٹھہرا اور ساتھ میں کیپٹن کارلیس کو کراچی بندر اور ڈیلٹا کے دوسری بندرگاہوں کی سروے کی اجازت دے دی گئی۔

دھیرے دھیرے انگریز سرکار آزاد سندھ پر اپنا شکنجہ کستی گئی۔ 1842ء میں ’لارڈ ایلنبرو‘ ہندوستان کا نیا گورنر جنرل بنا اور 3 ستمبر 1842ء کو چارلس نیپئر بمبئی سے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔

جب چارلس نیپئر حیدرآباد پہنچا تو میر صاحبان نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا،پھر دوسرے دن اکڑی گردن کے ساتھ وہ اسٹیمر میں بیٹھ کر سکھر کے لیے چلا گیا۔اس استقبال کاثمر میروں کو یہ ملا کہ نیپئر نے ’آؤٹرام‘ کو ہدایت کی کہ میروں سے سخت قسم کا معاہدہ کیا جائے، جس میں یہ درج تھا کہ انگریز فوج کی نقل و حمل اور خوراک پر جو خرچ آئے وہ تالپور ادا کریں گے۔

نپیئر کا زمانہ 1843ء سے 1847ء تک ایک فوجی راج تھا، اور نپیئر کے جانے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سندھ کا بمبئی سے الحاق کردیا جائے اور آنے والے وقت میں یہ بمبئی کے گورنر کے ماتحت رہے۔ اس فیصلے کے بعد سندھ کی آزاد حیثیت ختم ہوگئی۔ جس کے بعد گورنر کا عہدہ ختم کرکے ’چیف کمشنر‘ کا نام دے دیا گیا اور ’مسٹر پرنگل‘ پہلا چیف کمشنر سندھ مقرر ہوا۔ پرنگل تقریباً ڈیڑھ برس تک کمشنر رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مقامی لوگ تالپوروں سے کی گئی گوری سرکار کی زیادتی اور ظلم کے ملے ہوئے زخموں کو چاٹ رہے تھے۔

مسٹر پرنگل کے بعد ’بارٹل فرئیر‘ کو سندھ بھیجا گیا۔ یہ وقت کے ہاتھوں ایک اچھا فیصلہ تھا، خاص کر سندھ کے لیے، کیونکہ گوروں نے یہاں کے لوگوں کو اتنا نچوڑا تھا کہ وقت آگیا تھا کہ دردوں کا درمان ہوسکے۔ وہ یقیناً ایک اچھا آدمی تھا۔جنوری 1851ء میں کمشنر کا چارج سنبھالنے کے لیے فرئیر سمندری راستے سے یہاں پہنچا۔ جہاز کو بندر سے دُور کھڑا کیا گیا اور ایک کشتی پر سوار ہوکر کراچی کے کنارے پر اُترا۔

فرئیر اپنے ایک خط میں ان دنوں کے کراچی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’ ’1851ء میں، ایک میل تک کا بھی راستہ نہیں تھا اور نہ کوئی پکا تعمیر کیا ہوا پُل موجود تھا۔ بندرگاہ کی بھی کوئی اچھی حالت نہیں ہے۔ یہاں جہازوں کا آنا ایک خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔ شہر میں گندگی بھی بہت ہے۔‘‘

فرئیر کی اس بات کا ذکر خود ناؤنمل بھی کرتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ’ ’ایک دفعہ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے تو فرئیر صاحب نے کہا کہ ’شہر بہت گندہ ہوگیا ہے، جہاں سے جاؤ بدبو آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شہر میں صفائی کے انتظامات کے لیے میونسپلٹی قائم کی جائے۔اگر کراچی میں کوئی ایسا انتظام کیا جائے اور ایک ہینڈریٹ گھی پر چھ پیسے محصول لگایا جائے تو شہر کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔‘‘اس طرح کراچی میں میونسپلٹی کی بنیاد پڑی۔

کراچی بندر گاہ کو بہتر بنانے کے لیے بمبئی چیمبر آف کامرس اور بمبئی اسٹیم نیویگیشن کمپنی کی رائے کے بعد بمبئی گورنمنٹ نے منظوری دی اور جنوری 1853ء میں ’میجر ٹرنر‘ نے سروے شروع کیا۔ اس کے بعد جیالاجی کے ماہر ’مسٹر ہارڈی ویلس‘ نے بھی تحقیق کی ،جس نے ویلس کی تحقیق کے حوالے سے ’بریک واٹر‘ بنوائی اور کچھ عرصہ بعد مھوڑہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا۔کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن کا خیال اور عمل بھی فرئیر نے ہی کرایا۔

فرئیر اپریل 1853ء میں ’لارڈ فاکلنڈ‘ کو لکھتا ہے کہ’ ’1851ء میں 126 میل سڑک 18525 روپوں میں بنائی گئی اور 1852ء میں 207 میل سڑل 28298 روپوں کی رقم سے بنوائی گئی۔ یہ راستے 40 فٹ چوڑے ہیں جو گزشتہ برسوں میں بنائے گئے ہیں۔ ایک گاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہے ہیں۔ راستوں کے اوپر سے پُل بنوائے گئے ہیں جن کی تعداد 168 ہوگئی۔ یہ پل پکی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنوائے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کی جانب سے بنائے گئے یہ پل انتہائی خوبصورتی ہیں۔‘‘فرئیر 6 ماہ کراچی میں اور سردیوں والے 6 ماہ ملک کے اور گاؤں اور شہروں کا وزٹ کرتاتھا۔اس نے ہر شعبے میں تبدیلیاں لانے کی بھرپور کوشش کی اور کامیاب بھی رہا۔فرئیر نے 1854ء میں پوسٹ کی ٹکٹوں کو سسٹم میں شامل کیا۔ یہ کام اس نے کراچی کے پوسٹ ماسٹر ’مسٹر ایڈورڈ لیس‘ کی مدد سے ’سندھ ڈسٹرکٹ ڈاک‘ کی ٹکٹوں کا بنیادی خاکہ تیار کروایا اور اس کی قیمت آدھا آنہ رکھی گئی۔

1859ء میں وہ کراچی کے بندر سے جانے لگا تو کتنوں کو دکھ ہوا ہوگا۔ ضرور ہوا ہوگا کہ وہ ایک بہتر انسان تھا، مگر سب سے زیادہ دکھی ناؤنمل تھا، اسے دکھی ہونا بھی چاہیے تھا کہ فرئیر اسے بہت چاہتا اور اس کی دلی عزت کرتا تھا۔ فرئیر 1862ء میں بمبئی کا گورنر بنا۔ اس سارے وقت کے دوران اس نے اپنے پرانے دوستوں کو یاد رکھا۔ سب کی خیر خبر لیتا اور جس سے جتنے تعلقات تھے وہ ان کو اپنے ظرف کا پانی دے کر سینچتا رہا۔

انگریز نے اگر دو ڈھائی سو سال حکومت نہیں کی ہوتی تو برصغیر کا شمار پسماندہ ممالک میں ہورہا ہوتا۔ یہاں نہ ہوتے اسکول، نہ ہوتے کالج، نہ ہوتیں یونیورسٹیاں۔ نہ ہوتے روڈ، نہ راستے۔نہ ہوتے اسپتال ، نہ ہوتے پل، نہ ہوتے ڈیم،نہ بچھتیں ریل کی پٹریاں۔

حوالہ جات:

’یادگیریوں‘۔ سیٹھ ناؤنمل ہوتچند ۔ سندھی ادبی بورڈ ۔ ’کلاچی سے کراچی تک‘۔ احسان سلیم ۔ ’وکیپیڈیا‘ اور ’انسائیکلوپیڈیا برٹینکا‘