مولانااوربلاول آمنے سامنے‘اے پی سی ناکام ہوتے ہوتے رہ گئی

June 27, 2019

کراچی (ٹی وی رپورٹ) اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری اورمولانا فضل الرحمن آمنے سامنے ‘اے پی سی ناکام ہوتے ہوتے رہ گئی ‘ جے یوآئی امیر نے توہین صحابہ کا معاملہ بھی مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرنے پر زور دیا جس کی مخالفت کرتے ہوئے بلاول کا کہناتھاکہ سیاسی معاملات میں مذہب کو استعمال نہیں کیاجائیگا‘فضل الرحمن کا کہناتھاکہ ہم مڈٹرم الیکشن کی طرف جائیں گے جس پر بلاول کا کہناتھا کہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ۔اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی‘ اجلاس میں فضل الرحمن اپوزیشن جماعتوں پر سخت برہم ہوئے‘ ذرائع کہتے ہیں کہ فضل الرحمن بعض اپوزیشن جماعتوں کے حکومت کے لئے نرم گوشہ رکھنے پر ناراض ہوئے ۔ جبکہ دو مواقع ایسے بھی آئے جب بلاول بھٹو زردار ی اور مولانا فضل الرحمن آمنے سامنے آگئے‘ فضل الرحمن کی برہمی پر بات کرتے ہوئے نمائندہ جیو نیوز ارشد وحید چوہدری کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے میزبان فضل الرحمن اس وقت اکیلے ہی حکومت کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے بیٹھے جب بعض اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے موجودہ حکومت کے حوالے سے نرم گوشہ سامنے آیا ۔ فضل الرحمن کافی برہم نظر آئے اور عندیہ دیا کہ اس وقت جو حکومت کی پوزیشن ہے اور رویہ ہے اس کے باوجود بھی اگر اپوزیشن اراکین ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ایسی حکومت سے جس کو وہ تسلیم بھی نہیں کرتے تو پھر ٹھیک ہے وہ جائیں اور جاکر ان سے بات چیت کریں ‘اس موقع پر فضل الرحمن انتہائی غصے میں نظر آئے اور کہا کہ یہ کیا تماشا ہے اگر اپوزیشن کے اراکین کو مذاکرات کرنے ہیں تو وہ جاکر کرلیں تاہم میرا احتجاج اکیلے بھی جاری رہے گا ۔ اس دھمکی کے بعد اپوزیشن کی جانب سے نرم گوشہ رکھنے والے اراکین بیک فٹ پر چلے گئے اور اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی خواہشات کے عین مطابق اسلام آباد لاک ڈاؤن کے حوالے سے رویہ تبدیل کرتے نظر آئے ۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ فوری طو رپر حکومت کے خلاف کوئی ایسا محاذ نہ کھڑا کیا جائے جس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے اور پارلیمنٹ عدم استحکام کا شکار ہو تاہم اس حوالے سے جب فضل الرحمن کی جانب سے شدید برہمی کا رد عمل سامنے آیا تو بلاول بھٹو ‘ شہباز شریف اور مریم نواز ششدر رہے گئے ۔ذرائع بتاتے ہیں کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس ناکام ہوتے ہوتے رہ گئی ‘دو مواقع ایسے تھے جب بات بگڑتے بگڑتے بچ گئی پہلا موقع اس وقت آیا جب فضل الرحمن نے کہا ہم مڈ ٹرم انتخابات کی طرف جائیں گے‘ احتجاج کو آگے لے کر جائیں گے اور اگر اس کے نتیجے میں ہمیں مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑے تو ہم کریں گے جس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اپنے نانا ‘ دو ماموں اور والدہ کو گنوا چکے ہیں ان کے کاندھوں پر قوم کی بھاری ذمہ داریاں ہیں وہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے جس پر ماحول میں تلخی پیدا ہوگئی جس پر فوری طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسی طرح ہمارے درمیان تلخیاں پیدا ہوتی رہیں تو پھر یہ ہماری ناکامی ہوگی ‘ اے پی سی کی ناکامی ہوگی اور مخالفین کو ہم پر فقرے کسنے کا موقع ملے گا‘ پھر حاصل بزنجو نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انتہا پسندانہ جو خیالات ہیں اس کی طرف جائے بغیر ایک کمیٹی بنادینی چاہئے جس کے ذریعے یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ احتجاج کا طریقہ کار کیا ہو ۔ دوسرا مواقع اس وقت آیا جب مشترکہ اعلامیہ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن جو عمران خان پر صحابہ کی توہین کا الزام لگا تھا اس کو شامل کرنا چاہتے تھے جس پر بلاول بھٹونے کہاکہ وہ مذہب کو کسی کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیں گے اور ناں اس کی اجازت دیں گے جس پر مولانا نے کہا کہ آپ جمہوریت کو استعمال کرنے دیں گے تو بلاول نے کہا بالکل میں جمہوریت کو استعمال کرنے دوں گا مگر مذہب کو نہیں ۔