فنِ خطاطی کی بہتری و بقا کے لیے سرکاری سرپرستی ناگزیر ہے

July 07, 2019

تجمل گرمانی،لاہور

فنِ خطّاطی کو دیگر تمام اسلامی فنون کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اسلامی فنِ خطّاطی کا آغاز دورِ نبوی ﷺکے مبارک عہدمیں ہوا اور اس وقت بہت سے اسلامی ممالک اس میدان میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فنِ خطّاطی کے عہد ساز اساتذہ پیدا ہوئے، جن میں منشی عبدالمجید پرویں رقم، خطّاط الملک، تاج الدّین زرّیں رقم اور سلطان الخطّاطین، حافظ محمد یوسف سدیدیؒ شامل ہیں۔حکومتِ پاکستان نے بھی فنِ خطّاطی کو اُجاگر کرنے ، خطّاطین کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے خصوصی اقدامات کیے ہیں اور گزشتہ چند برسوں سے بین الاقوامی سطح کے فنِ خطّاطی کے مقابلوں اور نمایشوں کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان مقابلوں میں پاکستان سمیت دُنیا بَھر سے نام وَر خطّاط حصّہ لیتے ہیں۔ اور ان ہی خطّاطین میں بین الاقوامی مقابلوں میں دو مرتبہ انعام حاصل کرنے والے پاکستانی خطّاط، ذوالفقار علی بھی شامل ہیں۔

ذوالفقار علی 1971ء میں پنجاب کے ضلع قصور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب ِعلمی ہی سے انہیں اسلامی خطّاطی سے جذباتی حد تک لگائو تھا۔ ذوالفقار علی نے 1980ء میں فنِ خطّاطی کے مقابلے میں ضلع بَھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔انہوں نے 5نومبر 2000ء کو پاکستان کیلی گراف آرٹسٹس گِلڈ الحمرا آرٹ کائونسل میں ہونے والے تیسرے بین الاقوامی مقابلۂ خطّاطی میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے انہیں شیلڈ اور میڈل سے نوازا۔ 2001ء میں ٹائمز ڈائری، لاہور نے انہیں تمغۂ حُسنِ کارکردگی اور 2003ء میں آغاز پرنٹرز، لاہور نے اسلامی کیلنڈر ایوارڈ دیا۔ 2اکتوبر2004ء کو پاکستان کیلی گراف آرٹسٹس گِلڈ کے زیرِ اہتمام چوتھی بین الاقوامی نمایش و مقابلۂ خطّاطی کا انعقاد ہوا، جس میں 25ممالک کے نام وَر فن کاروں نے حصّہ لیا۔ اس نمایش میں ذوالفقار علی نے تیسری پوزیشن حاصل کی اور اُس وقت کے گورنر پنجاب، لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے انہیں شیلڈ اور نقد انعام سے نوازا۔ 2008ء میں ذوالفقار علی کا ایک شاہ کار کویت کے میوزیم میں آویزاں کیا گیا اور کویت کی وزارتِ اوقاف و اسلامی امور نے انہیں خصوصی مراسلہ جاری کر کے خراجِ تحسین پیش کیا، جو پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔

ذوالفقار علی

ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ اُن کے لیے یہ اَمر بھی باعثِ فخر ہے کہ لاہور کے الحمرا ہال میں منعقد ہونے والی خطّاطی کی چوتھی عالمی نمایش میں شامل اُن کے فن پارے حکومتِ پاکستان نے دوست ممالک کو بہ طور ثقافتی تحفہ پیش کیے۔ نیز، انہوں نے 2001ء میں سورۃ الفاتحہ کی تمام آیات کو خطِ طغریٰ میں تحریر کیا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے خطّاط ہیں۔ ذوالفقار علی نے ایرانی حکومت کی خصوصی دعوت پر تہران میں ’’رحمۃ للعالمین ﷺ‘‘ کے نام سے منعقدہ گریٹر فیسٹیول میں فنِ خطّاطی کے شعبے میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ انہوں نے نہ صرف کینوس پر خُوب صُورت فن پارے تخلیق کیے ہیں، بلکہ تاریخی عمارات پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت قطب الاقطاب، سائیں قطب علی شاہؒ سندھیلیاں والا پیر محل کے مزار شریف پر کی گئی خطّاطی قابلِ ذکر ہے۔ ذوالفقار علی اب تک ہزاروں فن پارے تخلیق کر چُکے ہیں۔ 2011ء میں انہوں نے حمائل آرٹ گیلری میں اپنے تمام فن پاروں کی سولو نمایش کی، جس میں انہوں نے قدیری خطِ کوفی کو اپنے مخصوص و منفرد انداز میں اس کمال سے پیش کیا کہ احبابِ ذوق کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ مذکورہ نمایش اُن کے کام کو دُنیا کے طول و عرض میں روشناس کروانے کا سبب بنی۔

ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ ’’دُنیا کی کسی بھی قوم نے اپنے رسم الخط میں حُسن و جمال پیدا کرنے کی اتنی کوشش نہیں کی، جتنی مسلمان خطّاطین نے کی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ فنِ خطّاطی کی خصوصی سرپرستی کرے اور اسے باقاعدہ نصاب کا حصّہ بنائے، تا کہ آنے والی نسلیں اس عظیم فن میں مہارت حاصل کر سکیں۔ ‘‘ ذوالفقار علی بہ ذریعہ انٹرنیٹ بھی فنِ خطاّطی کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ ’’مَیں نے فری آن لائن کلاسز کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، جس سے اب تک ہزاروں مشّاقِ فن استفادہ کر چُکے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں مُلک کے نام وَر خطّاط نے بتایا کہ ’’ مَیں ان دنوں قرآنِ پاک کا ایک منفرد قلمی نسخہ تیار کر رہا ہوں، جس کا ہر صفحہ ایک پینٹنگ پر مشتمل ہو گا اور یہ دُنیائے خطّاطی کے لیے ایک نادر ترین اثاثہ ثابت ہو گا۔‘‘ کمپیوٹرائزڈ یا ڈیجیٹل کیلی گرافی کے فنِ خطّاطی پر اثرات کے حوالے سے ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ’’ ڈیجیٹلائزیشن کسی حد تک فنِ خطّاطی پر اثر انداز ہوئی ہے، لیکن کمپیوٹر جدّت پیدا کر سکتا ہے اور نہ از خود کسی نئے رسم الخط کی نوک پلک سنوار سکتا ہے۔ یعنی جو کام ایک خطّاط کر سکتا ہے، وہ کمپیوٹر کے بس کی بات نہیں۔ ایک وقت تھا کہ خطّاط اور دوسرے فن کار بادشاہوں، شہنشاہوں کے دربار کی زینت ہوا کرتے تھے ، لیکن دَورِ حاضر میں حکومتی عدم دِل چسپی کے باعث کئی عظیم خطّاط انتہائی مفلسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے دُنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اگر یہی حال رہا، تو وہ دن دُور نہیں کہ جب یہ عظیم فن اور اس کے تخلیق کار معاشی مسائل کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور یہ عظیم وَرثہ ہم سے چِھن جائے گا۔ ‘‘