شجرکاری مہم میںبھرپور حصہ لیں

July 16, 2019

تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے بال جبریل میں تاریخ المقری کے حوالے سے لکھا ہے کہ خلیفہ عبد الرحمٰن اول نے سپین کے علاقے ’’مدینۃ الزہرا ‘‘ میں سب سے پہلا کھجور کا ایک درخت بغداد سے لے جا کر لگایا تھا جو اتنا پھلا پھولا کہ صدیاں گزر جانے کے باجود سرزمین اندلس کھجوروں کی مٹھاس سے معمور ہے اور وہاں کی کھجور حوالے سے عالمی منڈی میں مشہور ہے۔علامہ کے الفاظ میں :
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرور ہے تو
اپنی وادی سے دور ہوں میں
میرے لیے نخل طور ہے تو
عرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
گویا یورپ میں کھجور کا درخت پہچانے کا سہرا مسلمانوں کے سر بندھتا ہے ۔ درخت لگانا جہاں زمینی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے بہت فائدہ مند ہے وہاں انسانیت کی خدمت کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔ کار ثواب بھی ہے ، بہترین صدقہ جاریہ بھی ہے ۔ زمینی ماحول کو صاف ستھرا اور خوشبو دار کرنا ، جہاں انسانوں کیلئے فائدہ مند ہے وہاں زیادہ بارشوں کا قدرتی ذریعہ بھی ہے ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں اتنے لمبے لمبے اور بڑے بڑے صحرا کیوں نظر آتے ہیں ۔ وہاں کی حکومتیں ا ن صحراؤں میں کھجور اور خود رو درخت لگانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتیں۔ درخت لگانا اللہ کی زمین کو سرسبز و شاداب بنا کر مالک ارض و سما کو خوش کرنے کے مترادف بھی ہے جس کے جواب میں قدرت ربانی وہاں بارشیں کثرت سے برساتی ہے ۔ یورپ میں درختوں کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ بغیر سر کاری اہل کار کے کوئی شخص درخت نہیں کاٹ سکتا ۔ ہر درخت کا فائلوں میں اندراج ہے ۔ یورپ درختوں سے سرسبز و شاداب اور خوبصورت ہے اور دنیا بھر کے سیاح وہاں آتے جاتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے میدان عرفات ریتیلا میدان تھا ۔ اکثر حجاج وہاں موسمی حدت کی وجہ سے بیمار ہوجاتے تھے ۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق مرحوم نے وہاں نیم کے پودے بڑی تعداد میں بھیجے اور اب یہ چٹیل میدان ہرا بھرا ہوگیا ہے حکومت سعودیہ ان نیم کے درختوں کی پوری پوری حفاظت کرتی ہے ۔ اور ان کی دیکھ بھال کیلئے مستقل محکمہ تشکیل دیا ہوا ہے جو اپنا کام نہایت دیانتداری سے سر انجام دے رہا ہے (پاکستان کے محکمہ جنگلات کی طرح غیر ذمہ داری اور ہڈ حرامی نہیں کرتا ۔ سعودی محکمہ جنگلات و زراعت کی دیانتداری کی وجہ سے یہ علاقہ جسے قرآن نے وادی غیر ذی ذرع قرار دیا اب ہرا بھرا نظر آرہا ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ شہری آبادیوں میں کوئی درخت نہیں رہنے دیتے اور جنگلات کے درخت کاٹ کاٹ کر بیچتے بھی ہیں اور زمین حاصل کرنے کیلئے بلا وجہ آگ بھی لگا دیتے ہیں درخت لگانے کیلئے مناسب زمین ، موسم اور دوسری ضروریات کا علم ہونا چاہیئے ۔مشہور ماہر جنگلات پروفیسرمحمد طاہر صدیقی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی آب و ہوا زیادہ تر خشک ہے اس لئے یہاں خشک آب و ہوا کو برداشت کرنے والے درخت لگائے جانے چاہئیں خشکی پسند اور خشک سالی برداشت کرنے والے درختوں میں‌ بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ اور فراش کے درخت قابل ذکر ہیں۔ اس کےساتھ آم کا درخت بھی جنوبی پنجاب کی آب وہوا کیلئے بہت موزوں ہے۔ وسطی پنجاب میں نہری علاقے زیادہ ہیں اس میں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکاین، ارجن اور لسوڑا لگایاجانا چاہئے۔ شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیلا، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں۔ کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں ان کی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں۔ سفیدہ صرف وہاں لگائیں جہاں زمین خراب ہو یہ سیم و تھور ختم کر سکتاہے سفیدہ ایک دن میں 25لیٹرپانی پیتا ہے لہٰذا جہاں زیرزمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگائیں اس کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ اسلام آباد، سطح مرتفع اور خطہ پوٹھوہار کیلئے موزوں درخت دلو، پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں۔ اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کا سبب ہے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ خطے میں اس جگہ کے مقامی درخت لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ زیتون کا درخت بھی یہاں لگایا جا سکتا ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا چاہیے۔ کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہور، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔ اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا چاہیے۔ کراچی میں ایک بڑے پیمانے پر کونو کارپس کے درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کیلئے استعمال نہیں کرتے۔ بلوچستان کے شہرزیارت میں صنوبر کے درخت لگائے جانے چاہئیں زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے ۔ زیارت کے علاوہ دیگر بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون، کرک، پھلائی، کیکر، بوڑھ، چلغوزہ، پائن، اولیو اور ایکیکا لگایا جانا چاہئے۔ کے پی کے(KPK) اور شمالی علاقہ جات میں شیشم، دیودار، پاپولر، کیکر، ملبری، چنار اور پائن ٹری لگایا جائے۔ پاکستان میں درخت لگانے کا بہترین وقت فروری، مارچ، اگست اور ستمبر کے مہینے ہیں، اگر آپ سکول کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگائیں اور ان کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ ہونا چاہیے۔ گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔ آپ بنا مالی کے بھی درخت لگا سکتے ہیں۔ نرسری سے پودا لائیں زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں نرسری سے ہی گینک ریت (مٹی سے بنی ہوئی) لائیں اور گڑھے میں ڈال دیں، پودا اگر کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں۔ پودا ہمیشہ صبح یا شام کے وقت لگائیں دوپہر کے وقت نہ لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔ پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں، گڑھا گہرا رکھیں تاکہ وہ پانی سے بھر جائے۔
گرمیوں میں ایک دن چھوڑ کر جبکہ سردیوں میں ہفتے میں دو بار پانی دیا جائے ۔
پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اسکو کھرپے سے نکال دیں ۔
اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن بہت زیادہ نہیں ڈالی جائے . زیادہ کھاد سے بھی پودا سڑ سکتا ہے ۔
بہت سے درخت جلد بڑے ہوجاتے ہیں کچھ کو بہت وقت لگتا ہے ۔ سفیدہ پاپولر سنبل شیشم جلدی بڑے ہوجاتے ہیں جبکہ دیودار اور دیگر پہاڑی درخت دیر سے بڑے ہوتے ہیں ۔
گھروں میں کوشش کریں شہتوت،جامن، سہانجنا،املتاس، بکائن یا نیم لگائیں ۔
اور ضروری بات کہ پودا لگاتے وقت مخلوق خدا کی منفعت کی نیت رکھیں ۔ اس پر اللہ تعالی اجر بھی دے گا اور درخت میں برکت بھی دے گا ۔