عمران، ٹرمپ ملاقات: افغانستان محور ہوگا

July 21, 2019

22 جولائی کو پاکستانی وزیرِ اعظم، عمران خان اور امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین وائٹ ہاوس میں ملاقات ہو رہی ہے۔اس ضمن میں وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں کہا گیا کہ’’ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون مستحکم کرنے پر زور دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں خطّے میں معاشی خوش حالی کا حصول ممکن ہو گا۔‘‘ مذکورہ بیان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملاقات دو طرفہ تعاون اور اقتصادی امور سے متعلق ہو گی۔ تاہم، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افغان امن عمل میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں امریکا کسی بھی وقت افغانستان سے نکل سکتا ہے اور افغان طالبان 18برس بعد دوبارہ مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ چوں کہ افغان امن عمل میں اسلام آباد کا کردار انتہائی اہم ہے، لہٰذا مبصرین کے مطابق عمران، ٹرمپ ملاقات کے ایجنڈے میں افغانستان کا معاملہ سرِ فہرست ہو گا۔افغان امن عمل کے حوالے سے قطر کے دارالحکومت، دوحا میں مذاکرات تواتر سے جاری ہیں، جب کہ رواں ماہ پہلی مرتبہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے نمایندوں کے درمیان گفت و شنید ہوئی۔ گرچہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کے نمایندوں کی شمولیت کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی، لیکن ماضی میں طالبان کے افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے بیانات کے پیشِ نظر اسے ایک بڑی پیش رفت اور امریکا کے نمایندۂ خصوصی برائے افغانستان، زلمے خلیل زاد کی کام یابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکا اور افغان طالبان نے جن چار نکات پر اتفاق کیا ہے، اُن میں جنگ بندی، رواں برس دسمبر تک امریکی افواج کا انخلاء، قیدیوں کا تبادلہ اور افغان سر زمین کو امریکا یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا شامل ہیں۔ مذکورہ بالا تمام نکات ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل اختیار کر چُکے ہیں، جب کہ طالبان کی جانب سے تشدّد سے اجتناب اور امریکی حملوں میں کمی جیسے مطالبات پر پیش رفت ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران افغانستان میں طالبان کی پُر تشدّد کارروائیوں میں، جن میں سیکڑوں افغان شہری ہلاک ہوئے ، کافی تیزی آئی اور اس سے افغان حکومت کے کم زور ہونے کا تاثر مل رہا تھا۔ اسی عرصے میں ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور کے برعکس افغانستان میں تعیّنات امریکی فوج کی تعداد اور جدید حربی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کر دیا۔ اس موقعے پر امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب میدانِ جنگ میں فوجی کمانڈر ہی فیصلہ کُن اہمیت کے حامل ہوں گے۔

ٹرمپ کے ان اقدامات سے افغان طالبان کی مشکلات میں اضافہ اور مذاکرات میں پیش رفت کی راہ ہم وار ہوئی۔ امریکی دبائو کے نتیجے میں طالبان بہ زورِ طاقت اقتدار حاصل کرنے کی بہ جائے انتخابی عمل کے ذریعے افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ دریں اثنا، اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان سے سہولت کار کے طور پر مدد کرنے کی درخواست بھی کی گئی، جس پر اسلام آباد نے بوجوہ آمادگی ظاہر کر دی۔ واضح رہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان افغان جنگ کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور ٹرمپ کا بھی یہ مؤقف رہا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ لہٰذا، افغانستان کے مسئلے پر عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے سے متّفق نظر آتے ہیں۔ پھر ایران کے ساتھ کشیدگی نے بھی امریکا کو افغانستان سے جان چھڑوانے پر مجبور کر دیاہے۔ اگر افغانستان کے قضیے میں بھارت کی بات کی جائے، تو امریکا، چین سے مقابلے کے لیے اسے خطّے میں ایک خاص کردار دینا چاہتا ہے۔ گرچہ چین اور بھارت نے ایک حد سے نہ بڑھنے پر اتفاق کیا ہے، لیکن پاکستان کے لیے بھی اس ضمن میں امریکی مؤقف کو سمجھنا ضروری ہے، کیوں کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد یہ ایک شدید خلل انگیز عُنصر کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضے کے لیے امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی اور تب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور امریکا میں جارج ڈبلیو بُش برسرِ اقتدار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت صدرِ پاکستان، جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے سامنے ہتھیار ڈال کر پاکستان کو افغان جنگ میں جھونک دیا، جب کہ اس سے قبل سابق صدر، جنرل ضیاء الحق نے بھی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑی گئی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا تھا، جس کے نتیجے میں امریکا اپنے حریف اور سوشلزم کے عَلم بردار مُلک کو منتشر کرنے میں کام یاب ہو ا۔ تاہم، امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں ایک خوف ناک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بعد ازاں، القاعدہ جیسی شدّت پسند تنظیم نے افغانستان کو اپنا ٹھکانا بنایا اور پھر نائن الیون کا وہ سانحہ رُونما ہوا کہ جس نے پوری دُنیا پر دُور رس اثرات مرتّب کیے۔ درحقیقت، 1979ء میں شروع ہونے والی افغان جنگ ہی 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کا سبب بنی اور یہاں سے امریکا کا انخلاء دراصل 40برس بعد ہو گا۔گرچہ 1989ء میں امریکا نے سوویت یونین کو پاش پاش کر دیا تھا، لیکن رُوس آج ایک بار پھر ایک بڑی طاقت بن چکا ہے، جب کہ پاکستان اور افغانستان کے حال پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔دراصل، اسلامی دُنیا کے ممالک میں ایک کم زوری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنے اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جاتے ہیں، جب کہ اقوامِ عالم سفارت کاری کے ذریعے واپسی کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھتی ہیں اور آج رُوس، امریکا اور چین، بھارت تعلقات ہمیں یہی پیغام دیتے ہیں۔ ان ممالک کے نزدیک ملکی مفاد کی تعریف اپنے مُلک کی ترقّی و خوش حالی ہے۔ سو، ہمیں بھی قبائلی دَور کی روایات سے نکل کر سفارت کاری کے جدید اصولوں کو اپناناچاہیے، وگرنہ ہم ہمہ وقت کشکول لیے پِھرتے رہیں گے۔

قطر کے دارالحکومت، دوحا میں منعقدہ بین الافغان مذاکرات میں شریک طالبان رہنماؤں کا وفد

افغانستان میں پاکستان کے کردار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ملاقات اہمیت کی حامل ہو گی۔ گزشتہ برس جنوری میں امریکی صدر کی جانب سے دیا گیا بیان پاکستانی قوم کی دل آزاری کا سبب بنا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اب دونوں ممالک کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں گے، لیکن آج ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کی جیت ہوئی۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملاقات میں عمران خان اپنے ملکی مفادات کا تحفّظ کیسے کریں گے، کیوں کہ صرف ہوٹل کی بہ جائے پاکستانی سفارت خانے کی عمارت میں قیام کرنے سے پیچیدہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت پاکستان میں امریکا کے خلاف بے تحاشا نفرت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں جہاں امریکی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہے، وہیں ہمارے حکم رانوں اور سیاسی رہنمائوں کا بھی خاصا کردار ہے۔ مثال کے طور پر ہم آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کرتے، لیکن پھر انہی عالمی اداروں کے توسّط سے ملنے والی امداد کو اپنی ترقّی کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ یہ دو عملی قوم کو گُم راہ کر تی ہے اور اس کے باعث عوام کے دماغ میں پیدا ہونے والی الجھن کو دُور کرنا ان رہنمائوں کے لیے بھی ایک عذاب بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی، آئی ایم ایف کو پاکستان کی اقتصادی تباہی کا ذمّے دار قرار دیتی تھی، لیکن حکومت میں آنے کے بعد یہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے ’’نجات دہندہ‘‘ بن چکی ہے۔ یہ پوری قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے یا پھر جہالت کا ایک اعلیٰ نمونہ۔ اسی طرح ہمارے ہاں امریکا کے خلاف سخت ترین زبان کے استعمال کو فخر و جرأت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں عمران خان نے بھی امریکی ڈرون حملوں، نیٹو سپلائی اور ٹرمپ سمیت دیگر امریکی صدور کے خلاف تُند و تیز بیانات دیے۔ نیز، پی ٹی آئی کی قیادت برسوں تک اپنے اس امریکا مخالف مؤقف پر اِتراتی اور نوجوانوں کے جذبات اُبھارتی رہی۔ یاد رہے کہ اگر کوئی سیاسی قیادت قومی مفاد کو انتخابی سیاست سے الگ نہ کر سکے، تو برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ لہٰذا، اب عمران خان کے لیے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور دورۂ امریکا کے موقعے پر وزیرِ اعظم پاکستان کے لیے امریکی صدر سے ذاتی روابط قائم کرنا مشکل ہو گا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (نون) کے دَورِ حکومت میں عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے چینی صدر، شی جِن پِنگ کو اپنا دورۂ پاکستان ملتوی کرنا پڑا تھا اور اس واقعے کو چینی قیادت آج تک نہیں بُھول پائی ہے۔ پھر ہمارے ہاں وائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کرنے والے پاکستانی وزرائے اعظم اور صدور کو وطن فروش قرار دینے کی روایت تاحال قائم ہے ۔ ایک موقعے پر عمران خان نے بھی سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی امریکی صدر، باراک اوباما سے ملاقات کو غدّاری کے مترادف قرار دیا تھا۔سو، یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کو بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ اس وقت بھی بعض طبقات امریکا سے مفاہمت پر آمادہ نہیں اور اگر دونوں ممالک کے درمیان کوئی معاہدہ ہو گیا، تو حکم راں جماعت کے لیے ان طبقات کو راضی کرنا بہت مشکل ہو گا۔

گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی کا ایک منظر

واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کا مُلک کے اندرونی استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور عمران خان کو اس حوالے سے امریکی انتظامیہ، عالمی ذرایع ابلاغ اور پاکستانی تارکینِ وطن کو مطمئن کرنا ہو گا، جب کہ دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ متّحدہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد اپنا امیدوار بھی نام زد کر چُکی ہے، مریم نواز کی جانب سے منظرِ عام پر لائی گئی احتساب عدالت کے جج، ارشد ملک کی آڈیو، ویڈیو ٹیپ نے عدالتی فیصلوں کو مشکوک بنا دیا ہے، حزبِ اختلاف میں شامل جماعتیں حکومت مخالف تحریک چلانے پر آمادہ ہیں، تاجر ہڑتالیں کر رہے ہیں اور منہگائی کے طوفان نے عوام کا جینا دُو بھر کر دیا ہے، تو کیا اس صورتِ حال کو وزیرِ اعظم کے دورۂ امریکا کے لیے آئیڈیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیز، اگر ملاقات کے حوصلہ افزا نتائج نکلتے ہیں، تو کیا اپوزیشن عمران خان پر بِک جانے اور جُھک جانے کے وہ روایتی الزامات عاید نہیں کرے گی، جو وہ خود اور ان کی جماعت کے دوسرے رہنما ماضی میں دوسرے سربراہانِ حکومت ومملکت پر عاید کرتے رہے۔ امریکا نے حال ہی میں کالعدم تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی پر پابندی عاید کی ہے، جس پر پاکستان نے یقیناً سُکھ کا سانس لیا ہو گا، لیکن دوسری جانب ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے دبائو پر پاکستان کو دیگر کالعدم تنظیموں پر سختی میں بھی اضافہ کرنا پڑا اور شاید ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ قرضے کی پہلی قسط جاری کرنے کے اعلامیے میں آئی ایم ایف نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے وہ ٹائم فریم بھی بتایا ہے کہ جس میں پاکستان کو ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ گرچہ اندرونِ مُلک اسے امریکا اور بھارت کی سازش قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ میں شامل کروانے میں انڈونیشیا کی جانب سے ہمارے خلاف کی گئی شکایات کا بھی عمل دخل ہے، جو ایک افسوس ناک اور وضاحت طلب اَمر ہے۔

لاہور کے کلمہ چوک پر شہری منہگائی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں

مذکورہ بالا صورتِ حال میں بہ ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر سے ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم پاکستان کے لیے اپنے ملکی مفادات کا تحفّظ کرنا مشکل ہو گا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی سیماب صفت شخصیت اُن کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر اپنے بدترین دشمن کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں اور شمالی کوریا کے رہنما، کِم جونگ اُن سے ان کی روز بہ روز بڑھتی قُربت سفارت کاری کے میدان میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چُکی ہے، جب کہ پاکستان اور امریکا کے تو آپس میں گہرے روابط رہے ہیں۔ فوجی تعاون کے علاوہ پاکستان کی کم و بیش 30فی صد تجارت امریکا سے ہوتی ہے۔ عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات کے بارے میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے شراکت داری کو فروغ دیا جائے گا، لیکن اس پارٹنرشپ کی بنیاد سےمتعلق فی الوقت کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ اس موقعے پر امریکا کو صرف ’’نئے پاکستان‘‘ کے نعرے سے لبھانا ممکن نہ ہو گا، کیوں کہ امریکی ماہرین اور سیاست دان ایّوب خان، ذوالفقار علی بُھٹّو، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے انقلابی نعروں کی حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ البتہ وہ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ معاشی امور کی باگ ڈور آئی ایم ایف سے وابستہ رہنے والے ماہرینِ معیشت کو سونپنے کے بعد مُلک کی اقتصادی سمت کیا ہو گی۔ علاوہ ازیں، شدّت پسندی بھی ایک اہم موضوع ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ عمران خان ماضی میں طالبان سمیت دوسری شدّت پسند تنظیموں سے متعلق اپنائے گئے اپنے مؤقف کو دُرست ثابت کرنے کے لیے کیا جواز پیش کریں گے۔ پھر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں پائی جانے والی گرم جوشی پر بھی عمران خان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی جائے گی، تو کیا وزیرِ اعظم پاکستان، امریکی قیادت کے سامنے کُھل کر اپنے تحفّظات کا اظہار کر سکیں گے۔ علاوہ بریں، چین اور سی پیک کے تناظر میں بھی گفتگو ہو گی، جب کہ عمران، ٹرمپ ملاقات کا دورانیہ صرف 60منٹ طے ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکا کے درمیان تلخی و کشیدگی برقرار ہے، اسے ختم کرنے کے لیے عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہو گی، البتہ باقی تمام تنازعات کے دیرپا حل کی ذمّے داری کُہنہ مَشق سفارت کاروں ہی کے سُپرد کر دینی چاہیے۔