ٹرمپ کی پالیسیاں دنیاکیلئے خطرناک

July 19, 2019

تحریر: محمد حنیف راجہ۔۔۔ گلاسگو
ہٹلر نسل کی بنیاد پر اپنی قوم اور خود کو باقی تمام دنیا سے برتر سمجھتا تھا، اپنے اسی غرور کی بنا پر شروع کی گئی جنگوں میں نہ صرف خود تباہ ہوا بلکہ آدھی دنیا کو بھی جہنم میں تبدیل کردیا اور کروڑوں کی تعداد میں بے گناہ افراد مارے گئے۔ دنیا کے عظیم ترین اور طاقتور ملک امریکہ کی عنان اقتدار ایک ایسے ہی غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ میں آگئی ہے، جس کی پالیسیاں پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں، اس کے نزدیک انسانی اقدار اور اخلاقیات کوئی اہمیت نہیں رکھتی، نسل پرست ہٹلر اگر یہودی مخالف تھا، تو یہ نسل پرست اسلام مخالف ہے، غیر سفید فام افراد اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی اس کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اب انہوں نے اپنے ہی ملک کے انتہائی اہم ادارے کانگریس کی چار ڈیمو کریٹ رنگ دار خواتین کو کہا ہے کہ ’’اپنے وطن واپس جائو‘‘ جبکہ ان میں سے تین راشدہ طلیب ایانا پریسلے اور الیگزینڈرہ اوکاہو امریکہ میں ہی پیدا ہوئیں، جبکہ چوتھی بچپن میں ہی امریکہ آگئی تھی، صدر ٹرمپ یہ بھول گئے کہ بشمول ان کے تمام سفید فام بھی امیگرنٹس ہیں، اصل امریکن تو وہ تھے جن کو ان کے آبائو اجداد نے جانوروں کی طرح گولیوں سے بھون کر ان کی نسل کشی کی تھی، صدر ٹرمپ یہ بات بھی بھول گئے کہ مین ہٹنMan Hattanنیو یارک میں دریائے ہڈسن کے کنارے جو مجسمہ آزادی نصب ہے، اس کے پہنے تاج پر سات کونے دنیا کے سات براعظوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور پوری دنیا سے امریکہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی شمع پوری دنیا کے لئے آزادی کا نشان ہے۔ صدر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مجسمہ آزادی کو بھی وہاں سے ہٹا دیں۔ صدر ٹرمپ کے ان چاروں خواتین کو امریکہ سے چلے جانے کی بات کرنے پر برطانوی وزیراعظم ٹریسامے بھی بول پڑی ہیں اور اس بیان کو مکمل طور پر ناقابل قبول کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ امریکی اسپیکر پیلوسی جن کی ان خواتین سے بعض معاملات پر نوک جھونک بھی ہوتی رہتی۔ انہوں نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسےXenophobicیعنی غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کی متنوع سوسائٹی اور اتحاد ہی اس کی اصل طاقت ہے، جبکہ صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی کئی نسل پرستانہ بیانات دے چکے ہیں، صدر اوبامہ کے خلاف جھوٹ پر مبنی یہ سازشی بیان دیا کہ وہ امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے، وسطیٰ امریکہ کے لوگوں کو جرائم پیشہ اور ریپ کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ 2018ء میں وائٹ ہائوس کی ایک میٹنگ میں انہوں نے افریقی ممالک کی اقوام کو Shitholeقرار دیا تھا۔ جس پر نہ صرف ڈیمو کریٹ بلکہ خود ان کی ری پبلکن پارٹی کے افراد نے بھی شدید تنقید کی تھی۔ اخلاقی طور پر ان کا کردار یہ ہے کہ ان پر کئی مبینہ جنسی اسکینڈل کے الزامات لگائے گئے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ نسل پرستی ان کو وراثت میں ملی ہے۔ 1973ء میں امریکی محکمہ انصاف ٹرمپ اور ان کے والد کو عدالت میں لے گیا اور ان پر الزامات لگائے کہ وہ افریقی نژاد کرایہ داروں کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔ 1975ء میں مجرم قرار دیئے جانے سے قبل ہی انہوں نے عدالت کے باہر مقدمے کو طے کرلیا، لیکن1978ء میں محکمہ انصاف ان کو دوبارہ عدالت میں لے گیا کہ انہوں نے کالے کرایہ داروں کے متعلق نہایت چالاکی سے ایک مخصوص طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں، لیکن زیادہ تر ان کا مقصد صرف اپنے انتہائی دائیں بازو کے افراد کو خوش کرنا ہوتا ہے، جن کی بنیاد پر انہوں نے آئندہ الیکشن لڑنا ہے۔ صدر ٹرمپ صدارتی آداب کی بھی قطعاً کوئی پروا نہیں کرتے، اپنے دورہ برطانیہ کے دوران انہوں نے لندن کے میئر صادق خان کے خلاف بیان بازی شروع کردی اور وہاں ایک دن تشدد کے تین واقعات پر ان کو تباہی قرار دیا، جواب میں صادق خان نے ان کے متعلق ایک دلچسپ فقرہ کہا کہ وہ وائٹ ہائوس میں6فٹ3انچ قد کے نیچے ہیں، صدر ٹرمپ کی سرکاری دعوت میں سیکرٹری داخلہ ساجد جاوید کو نہ بلائے جانے پر بھی سوالات اٹھتے رہے، صدر ٹرمپ کی پالیسیاں اس حد تک غیر یقینی ہیں کہ امریکہ میں برطانوی سفیر کم ڈیروخ نے اپنی حکومت کو بھیجے گئے مراسلوں میں بتایا کہ صدر ٹرمپ کی حکومت انتہائی نکمی کی پیش گوئی کے ناقابل اور سفارتی لحاظ سے نااہل ہے۔ ان کی پالیسیاں عالمی تجارتی نظام کو تباہ کرسکتی ہیں، یہ خط و کتابت جب فاش ہوئی تو صدر ٹرمپ نے برطانوی سفیر کو اسٹوپڈ قرار دیا۔ برطانوی سفیر نے اب اپنے عہدے سے استعفے دے دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی اور اسرائیل کی بے جا حمایت ان کا خاصا ہے۔ 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران ہی ان کی مسلم دشمنی سامنے آگئی، وہ دہشت گردی کو صرف مسلمانوں اور اسلام سے منسوب کرتے ہیں۔ برسراقتدار آتے ہی انہوں نے سات مسلم ممالک کے لئے ویزوں پر پابندی عائد کردی تھی، اسرائیل ریاست کو دنیا بھر سے تسلیم کرانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے، جب صدر ٹرمپ وائٹ ہائوس میں آئے تو مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں رمضان کی افطار اور عید پارٹیوں کا سلسلہ بند کردیا جوکہ1996ء سے جاری تھا۔ ٹرمپ برطانیہ میں بھی نائیجل فراج اور بورس جانسن جیسے دائیں بازو کے افراد کو سپورٹ کررہے ہیں، جس سے یہاں بھی نسلی اقلیتوں کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ٹرمپ برطانیہ کی یورپ سے دوستی ہرگز پسند نہیں کرتے اور یورپی یونین کے اتحاد کو امریکہ کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔