محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نوحہ

February 06, 2013

حکومت کے ذمہ داران14مارچ کو اسمبلیوں کی تحلیل ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ یوں بھی موجودہ حکومت اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے کو ہے، ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں،حکمراں اور اپوزیشن انتخابی مہم چلانے میں سرگرم ہوجاتیں، پانچ سال میں عوام پر جو گزرگئی پی پی اس کی صفائیاں پیش کرتی اور اس کے اتحاد ی ایم کیو ایم، ق لیگ اور اے این پی عوام کے سامنے وضاحتیں پیش کرتیں کہ انہیں کیونکر ملک کی یکسر نکمی اور کرپٹ حکمران جماعت کا اتحادی بننا پڑا۔ مسلم لیگ ن بطور اپوزیشن جماعت، پیپلز پارٹی (بطور حکمران جماعت) کی لوٹ مار کا”کچہ چٹھہ“ عوام کے سامنے مکمل اعداد و شمار کے ساتھ لاتی اور اپنا وہ پروگرام بھی جو آئندہ اقتدار کی باری لینے پر عوام کی حالت بدلنے کے اپنے دعوؤں کا عکاس ہوتا لیکن ان دونوں جماعتوں کے مجموعی رویے، سرگرمیوں اور سیاسی ابلاغ سے تو یہ معلوم دے رہا ہے کہ الیکشن ابھی بہت دور ہیں اور اس کی مہم چلانے کی ابھی کوئی ضرورت نہیں۔ غیر ملکی دورے اور دھرنے ہورہے ہیں الیکشن کمیشن کی تشکیل ہوئے کئی ماہ گزر گئے ۔اب کینیڈین شیخ الاسلام نے اس کی ہیت پر اعتراض کردیا ہے تو مسلم لیگ ن بھی ا س کی ساخت موثر بنانے کے لئے دھرنے پر اتر آئی ہے۔ اسے پہلے کیوں ہوش نہیں آئی؟ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کی پارلیمانی کمیٹی میں ہیرنگ کے آئینی تقاضے کے بغیر کمیشن تشکیل پاگیا اور مسلم لیگ (ن) کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ اسے بطور اپوزیشن جماعت اس کی نااہلیت کہا جائے یا عمران خان کے ان الزامات کو درست سمجھا جائے کہ مطلب کا انتخاب کرانے کے لئے دونوں جماعتوں نے اندر سے ایک مخصوص نوعیت کا گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے۔ خان اعظم کے ان الزامات کو اس وقت تقویت پہنچی جب مسلم لیگ (ن) نے بھی ملک کی ایک متنازعہ شخصیت محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا۔باخبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کا دل و دماغ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو نگران وزیر اعظم بنانے پر ٹھک گیا تھا لیکن مسلم لیگ(ن) کے حامی سیاسی حلقوں، عام لوگوں حتیٰ کہ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا پہلا ہی ردعمل آنے کے بعد محترمہ عاصمہ جہانگیر کو نگران وزیر اعظم بنانے کا اتفاق رائے یا گٹھ جوڑ ڈسٹرب ہوگیا ہے، بعض صحافیوں کا تو اب بھی دعویٰ ہے کہ میاں صاحب سابقہ صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینے کی طرح، بیگم صاحبہ کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق جاری رکھنے کا خطرہ مول لے لیں گے، اگر میاں صاحب واقعی یہ کر گزرے تو بہت بڑی تعداد میں ان کے ووٹرز کا معاملہ اس یقین تک محدودنہیں ہوگا کہ سٹیٹس کو کی دونوں جماعتیں روایتی طرز کے انتخاب کے انعقاد پر متفق ہیں اس لئے میاں نواز شریف نے یہ خطرہ مول لیا ہے بلکہ ان کے شکوک و شہبات کا دائرہ بہت وسیع ہوگا اتنا کہ ملک کی سرحدوں سے باہر نکل جائے گا کیونکہ محترمہ کی بھارت سے جو دوستی ہے اور پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کے لئے جو فنڈز ملتے ہیں اور کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی وسیع تر اور سنگین خلاف ورزی پر مکمل خاموشی، مغربی ممالک میں ان کی جو پذیرائی ہے اس پر مسلم لیگ(ن) کا ووٹر تو کیا ایک عام غیر جانبدار پاکستانی شہری کی نظر میں بھی وہ متنازعہ ہیں۔ انہیں کسی نے متنازعہ نہیں بنایا، وہ اپنے رویے ا ور ابلاغ سے پاکستانی عوام کی اکثریت میں متنازعہ ہیں۔ مانا کہ وہ سیاستدان نہیں ہیں لیکن ان کی شہرت ایک ماہر قانون دان سے زیادہ”بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی چمپئن“ کے طور پر ہے۔ اس کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ وہ آج پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے سالانہ منائے جانے والے قومی دن پر مسئلہ کشمیر کے حساس ترین پہلو، بنیادی انسانی حقوق کی وسیع تر اور سنگین خلاف ورزیوں ”کو ریڈریس کرتیں، ان کے لئے بھارت کے حکمرانوں ،میڈیا اور سماجی حلقوں میں خیر سگالی کا جو جذبہ پایا جاتا ہے اور بھارتیوں کے لئے پاکستان میں یہ ہی جذبہ پاکستانیوں میں پیدا کرنے کے لئے جس طرح وہ کوشاں رہتی ہیں، اس کاتقاضا تو یہ ہے کہ بھارتیوں میں پائے جانے والے اپنے پر اس اعتماد اور خیر سگالی کا فائدہ اٹھا کر وہ کبھی تو بھارت میں جاکر وہاں کے حکمرانوں، میڈیا اور ممتاز شہریوں(جن سے ان کے رابطے ہیں)کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی فوج کے مظالم پر توجہ دلاتیں۔ ان کی بھارت سے دوستی محترمہ کی صاحبزادی کو انڈین ٹی وی چینل پر ملازمت تک ہی کیوں محدود ہے؟ یا زیادہ سے زیادہ ان کے خیر سگالی کے دوروں تک۔
بھارت میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی خاتون چمپئن ارون دھتی رائے نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل کا کیس عدالت میں لڑا۔ کشمیریوں کے خلاف بھارتی افواج کے مظالم پر احتجاج کیا اور پاکستان آتی سمجھوتہ ایکسپریس کو جلا کر درجنوں پاکستانی مسافروں کو زندہ جلانے کی کھل کر مذمت کی۔ کیا محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بھی بنیادی انسانی حقوق کے چمپئن کے طور پر ایسا کیا؟ پاکستانی اور مسلمان کے طور پر نہیں انسانوں کے حقوق کے تحفظ کے علمبردار کے طور پر؟ کیا محترمہ اس سوال کا جواب دینا پسند کریں گی کہ اگر صدر زرداری اور میاں نواز شریف اپنے اتفاق رائے کے مطابق آپ کو نگران وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ سمجھوتہ ایکسپریس جلانے والے مجرموں کو پاکستان کے حوالے کرنے کیلئے حکومتی اقدام لیں گی؟ کیونکہ جے پور کے کانگریسی جلسے میں بھارتی وزیر داخلہ نے اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ2007 میں پاکستانی مسافروں کی سمجھوتہ ایکسپریس اس وقت کی حکمران جماعت اور اس کی حامی انتہا پسند ہندو تنظیم کے کارندوں نے جلائی تھی۔ بھارتی سیکرٹری داخلہ نے بھی اس کی تصدیق کی۔ موجودہ نئی دہلی حکومت تو یہاں تک تصدیق کرچکی ہے کہ ٹرین جلانے والوں کی نشاندہی ہوچکی ہے، اسکے بعد تو محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بنیادی انسانی حقوق کے نام پر ہی سراپا احتجاج بن جانا چاہئے تھا، خصوصاً جبکہ انکے نگران وزیراعظم بننے کے کچھ نہ کچھ امکان ہیں لیکن انہوں نے تو اپنا ہی رونا رویا ہے۔ کالم نگار شاہین صہبائی کے اپنے پر ایک تنقیدی کالم کے حوالے سے محترمہ عاصمہ جہانگیر نے جو بیان جاری کیا ہے اس میں وہ اپنے مخصوص انداز ابلاغ کرتے ہوئے کہتی ہیں”یہ ضیاء الحق کا پاکستان نہیں، جہاں روشن خیال لوگ نظر انداز کئے جائیں۔ ایک روشن خیال عورت کا نگران وزیر اعظم کے لئے نام آنا مثبت پیغام ہے“۔ ان کے اپنے”روشن خیال“ ہونے کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن ایک تو ان کا نام حکمران جماعت کی طرف سے آیا جس (پی پی) نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ہی اپنے روشن خیال رہنماؤں معراج محمد خاں، جے اے رحیم، مختار رانا وغیرہ کو ٹھکانے لگادیا تھا اور پارٹی کے سارے روشن خیال اور ترقی پسند چپ بھی سادھے رہے اور پارٹی میں رہ کر دودھ بھی پیتے رہے۔ مانا کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر اپنے دعوے کے مطابق روشن خیال ہی ہیں لیکن یہ بھی تو مانیں کہ ان کا نام اس حکمران جماعت نے بطور نگران وزیر اعظم تجویز کیا ہے جس نے کرپشن کرکے اٹھارہ کروڑ عوام کو لوڈ شیڈنگ کی تاریکیوں میں غرق کردیا ہے۔ رہے میاں نواز شریف جو ان کے دوسرے تجویز کنندہ ہیں وہ بہرحال ضیاء الحق کی ہی سیاسی باقیات ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ”یہ ضیاء ا لحق کا پاکستان نہیں جہاں روشن خیال نظر انداز کئے جائیں“ درست نہیں، ٹھیک ہے کہ آج ترقی پسندی کو دفن کرنیوالے اور جاگیردارانہ جمہوریت کو پروان چڑھانے والی پی پی کا دور ہی سہی لیکن اس میں آپ کے دوسرے تجویز کنندہ وہی ہیں جن کیلئے ضیاء الحق نے دعا مانگی تھی کہ”نواز شریف کو میری عمر لگ جائے“ وہ تو لگ گئی، یہ الگ ہے کہ آج ضیاء الحق کا تراشا سیاستدان اتنا روشن خیال ہوگیا کہ اس نے آپ جیسی”روشن خیال“ خاتون کو نگران وزیر اعظم کیلئے تجویز کیا ہے جسے ملک کو تاریکیوں میں ڈبونے والی حکمران جماعت نے بھی مانا لیکن میاں نواز شریف یاد رکھیں کہ یہ ہوگیا تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ محترمہ کے پاس تو پھر شیخ الاسلام کی طرح شاید کینیڈین شہریت بھی ہے(جیسا کہ بعض سیاسی حلقوں میں شنید ہے) ۔رہی ”روشن خیال خاتون“ کو نگران وزیراعظم بنانے کی مثبت علامت ہونے کی بات تو پاکستانی قوم(علماء سمیت) نے تو1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خاں کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بنا کر اپنی روشن خیالی ثابت کردی تھی، پھر اپوزیشن نے بھی تو مولویوں سمیت محترمہ بینظیر کو دو مرتبہ وزیر اعظم بنایا نہیں تو مانا تو سہی۔ بزدل دہشتگرد انہیں سیاسی منظر سے نہ ہٹاتے تو تیسری بار بھی مان لیا جاتا حالانکہ وہ خاتون بھی تھیں اور ”روشن خیال“بھی۔