دیدہ دل

August 11, 2019

بیگم فیروزالدّین سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ،خیر سے شوہر کے ہم راہ حج پر جو جارہی تھیں۔ گھر میں بھی خُوب رونق ، چہل پہل اور گہما گہمی تھی ۔ سب ہی عزیز رشتے دار، دوست احباب ملنے آرہے تھے ، ویسےتو مہمان داری کرتے کرتے انہیں ابھی سے تھکن ہونے لگی تھی، مگر اللہ کے گھر جانے اور فریضۂ حج کی ادائیگی کی خوشی کے آگےتمام تھکن بھولے بیٹھی تھیں۔ رات گئے کھانے کے بعد ذرا فرصت ملی، تو بہو عائزہ اور بیٹی حوریہ کو ہدایات دینے لگیں کہ پہلی بار تہوار کے موقعے پر گھر سے باہر ہوںگی، تو بہو اور بیٹی ذمّے داری سے تمام کام سنبھال سکیں۔ خاص طور پر قربانی کے حوالے سے، کیوں کہ ہمیشہ و ہی سب کچھ سنبھالتیں،عزیز ،رشتے داروں اور ہم سائیوں وغیرہ کو گوشت بھیجتی تھیں۔’’ عائزہ! بیٹا مجھے صبح تربیتی کیمپ جانا ہے،مگر میرے آنے تک تم رقیّہ(کام والی) کو جانے مت دینا،مَیں سوچ رہی ہوں اپنے جانے سے پہلے اُس سے گھر اور کچن کی اچھی طرح صفائی کروالوں اور ہاں تم یاد سے عید الاضحیٰ سے ایک ،دو دن قبل فریج اور ڈیپ فریزر اچھی طرح صاف کروالینا۔گھر کے حصّے کا گوشت بہت اچھی طرح صاف کرکے ، اُبال کے رکھنا۔ قیمہ، چانپیں، رانیں سب سلیقےسے سنبھالنی ہیں اور جیسےمَیں کوفتے،شامی اور چپلی کباب بناتی ہوں، تم لوگوں کو بھی بنا کر رکھنے ہوں گے۔ ہمارے حج سے واپس آتے ہی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا،بالخصوص حوریہ کے سُسرال والوں کو تو ضرور بلانا ہوگا، آخر بیٹی کے سُسرال کا معاملہ ہےاور وہ لوگ ہیں بھی غیر تو بہت دھیان سے چلنا پڑے گاکہ انہیں کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو۔‘‘’’ارے بیگم! آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں، دونوں بچّیاں بہت سگھڑ سمجھ دار ہیں، ذمّے داری سے گھر سنبھال لیں گی ۔ آپ بس سفرِ حج کی تیاری کریں اور دماغ پُر سکون رکھیں۔‘‘زوجہ کو ایک گھنٹے سے بہو، بیٹی کو ہدایات دینے میں مصروف پا کر آخرکار فیروزالدّین صاحب مُخل ہوئے تو ان کی نظر بھی گھڑی پر پڑی اور وہ یہ کہتی ہوئی کمرے کی طرف چل دیں کہ ’’ چلو بچّو ،اب تم لوگ بھی سو جاؤ، باقی باتیں کل کریں گے، وقت کا خیال ہی نہیں رہا، مجھے تو صبح تربیتی کیمپ بھی جانا ہے۔‘‘

عید قریب آرہی تھی، ہر طرف سے گائے بکروں کی آوازیں، بچّوں کا شور و غُل سنائی دے رہا تھا۔ دونوںنند، بھاوج کچن میں مصروف تھیں کہ عائزہ نے حوریہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’حوریہ میڈم! لذیذ پکوان پکانا سیکھ لیں، خاص طور پر گوشت کی اچھی اچھی ڈشز کی ترکیبیں آزمانا شروع کردو ، ماشاء اللہ بھرا پُرا سُسرال ہے تمہارااور سب ہی بہت چٹورے لگتے ہیں۔امّی جی کی خاص ہدایت کے مطابق اس بار اُن کی دعوت کا سارا اہتمام تمہیں ہی کرنا ہے۔ سُنا ہے تمہارے دولھا میاں بھی کھانوں کے بڑے شوقین ہیں ۔ ویسے بھی مرد کے دل کا راستہ تو معدے ہی سے نکلتاہے۔‘‘عائزہ نے نند کو چھیڑتے ہوئے کہا۔’’بھابھی! مَیں توابھی تک رخصت بھی نہیں ہوئی اور آپ روایتی بھابھی بن گئیں۔ کرلوں گی سارا اہتمام، آپ فکر نہ کریں‘‘۔حوریہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔’’ سلام باجی…‘‘ اتنے میں رقیّہ اپنی نو،دس سالہ بیٹی زینب کے ساتھ آگئی۔ ’’شکر ہے تم آگئیں، کتنے ڈھیر سارے کام پڑے ہیں رقیّہ…‘‘ عائزہ نے کہا ۔’’آپ فکر نہ کریں بھابھی ،مَیں آگئی ہوںناں، سب سنبھال لوں گی اور مَیں زینب کوبھی اسی لیےساتھ لائی ہوں۔‘‘ ’’زینب سے کام نہ کروایا کرو۔ پڑھنے دواسے، مَیں نے پہلے بھی کئی بار تم سے کہا ہے۔‘‘ حوریہ نے قدرے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’ جی باجی! بس آج کل کام زیادہ ہے ناں،سب ہی کے گھر عید کی تیاریاں، صفائیاں وغیرہ ہو رہی ہیں، تو بس اسی لیے اِسے ساتھ لا رہی ہوں۔‘‘ رقیّہ نے اپنی مجبوری بتائی۔ رقیّہ کام میں لگ گئی ،تونند بھاوج باہر آکر ٹی وی دیکھنے لگیں۔ عائزہ نے کوکنگ شولگایا اور حوریہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ خلافِ توقع حوریہ بھی توجّہ سے شو دیکھنے لگی (اُسے کچن کے کام یا کھانا پکانے میں بالکل دل چسپی نہیں تھی) ۔ کچھ دیر بعد وہ کچن میں کسی کام سے گئی، تو زینب کی باتیں سن کر ٹھٹھک کر رہ گئی ۔ وہ رقیّہ سے کہہ رہی تھی ’’ امّاں! دیکھیں ناں کیسے سب کے گھر عید کی تیاریاں ہو رہی ہیں، نئے پردے، بستر کی چادریں، برتن آرہے ہیں اور ہمارے توابھی تک کپڑے بھی نہیں آئے ۔ بقر عید پرسب کے گھرکتنےمزے مزے کے کھانے پکتے ہیں، کوفتے، کباب، تکّہ بوٹی اور نہ جانے کیا کیااور ہمارے گھر عید کے روز بھی پتلے شوربے کاسالن بنتا ہے …امّاں ! مجھے بھی سب کی طرح عید منانی ہے، اچھے اچھے کھانے ،کھانے ہیں۔‘‘ ’’اچھا اچھا زیادہ باتیں نہ بنا، مَیں نےکتنی بار سمجھایا ہے دوسروں کی حرص نہیں کرتے، اللہ نے جتنا دیا ہے، اُسی میں ہنسی خوشی گزارہ کرنا چاہیے۔ اب جلدی ہاتھ چلا … ابھی اور گھروں میں بھی کام کرنے جانا ہے۔‘‘ رقیّہ نے بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے تیزی سے کام کرنے کی نصیحت کی۔ ماں، بیٹی کی باتیں سُن کر حوریہ کا دل بجھ سا گیا ، وہ جس کام سے کچن گئی تھی، کیے بغیر ہی بوجھل قدموں سے واپس لاؤنج میں چلی آئی ۔

اگلے دن اس کے سُسرال والے عیدی لے کر آئے۔ بہت خوب صُورت برانڈڈ سوٹس اور قیمتی جیولری، مگر اس کے دل کی کلی نہ کھِلی، نہ جانے کیوں زینب کی باتیں اُسے چین نہیں لینے دے رہی تھیں،اُس کی نیند تک اُڑگئی تھی۔ عید کے دن عائزہ، حوریہ اور رقیہ گوشت تقسیم کرتے ،سنبھالتے نڈھال سی ہوگئیں۔’’ پتا نہیں امی کیسے کرتی تھیں سب۔‘‘ حوریہ نے بھابھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔دوپہر کو رقیّہ جانے لگی، تو حوریہ نے اسے گوشت کے تین چار، بڑے بڑے پیکٹ اور ساتھ ہی اس کے اور بچّوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے دیئے۔’’ یہ کیا باجی؟ اتنا سب کچھ دے دیا آپ نے … ‘‘ رقیہ نے حیران نظروں سے حوریہ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔‘‘’’یہ کچھ بھی نہیں ہےرقیّہ ، تم اور تمہارے بچّے ہمارے فیملی ممبرز کی طرح ہو، کیا مَیں اپنی بھانجی، بھانجوں کے لیے کپڑے بھی نہیں دے سکتی۔ تم ہمیں غیر سمجھتی ہو؟‘‘ حوریہ نے ہلکی سی خفگی کااظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’ بس، یہ ہماری طرف سے تم لوگوں کے لیے عید کا تحفہ ہے۔‘‘ عائزہ نے بات آگے بڑھائی ۔ رقیّہ نے ممونیت سے دونوں کودیکھا اور چلی گئی۔ اُس کے جانے کے بعد عائزہ حوریہ سے گویا ہوئی’’حوریہ ! تم نے اتنا سارا گوشت تو دیا، لیکن اپنی عیدی میں آئے جوڑوں میں سے ایک جوڑا بھی دے دیا۔‘‘ ’’بھابھی! رقیّہ کے گھر میں دس بارہ افراد ہیں۔ گوشت کے ایک آدھ پیکٹ سے بھلا اُن کا کیا ہوتااور ہماری شاپنگ تو سارا سال ہی چلتی رہتی ہے۔ عاشر بھائی سے کہیں گاڑی نکالیں، گھر کا حصّہ بھی رقیہ کے محلّے میں دے آتے ہیں۔ اُن کی طرف بہت غرباء، مستحقین ہیں، جن کے بچّے سارا سال گوشت کھانے کوترستے ہیں۔‘‘ ’’ اور اپنے لیے کچھ نہیں رکھنا، عید کے بعد اتنی دعوتیں جو ہونی ہیں۔ امّی آکربہت ناراض ہوں گی۔‘‘ عائزہ نے فکرمندلہجے میں کہا ۔’’ بھابھی ! قربانی کا اصل مزا مستحق لوگوں میں گوشت تقسیم کرنے ہی میں ہے۔اگر ہم اپنا حصّہ بھی غرباء میں تقسیم کردیں گے، تو ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ البتہ، اُن بے چاروں کا بھلا ضرور ہو جائے گا۔ ہم دعوتوں کے لیے گوشت خرید لیں گے، لیکن اُن کے پاس تو اتنے پیسے تک نہیں ہوتے کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ شاید زندگی میں پہلی بار مَیں نے سوچا کہ آخر عیدِ قرباں کا فلسفہ کیا ہے، ورنہ تو ہر سال عید آتی اور گزر جاتی تھی۔ ہم نت نئے پکوان کھاتے اور اپنے لیے سو طرح کی چیزیں اکھٹی کرتےہیں۔ کبھی بار بی کیو ہو رہا ہے، تو کبھی فیملی گیٹ ٹو گیدر۔ ہم اپنے انجوائے مینٹ میں غریبوں کو بھول ہی جاتے ہیں، وہ غریب جو محنت مزدوری کرتے ہیں، ہمارے گھر وں میں کام کرتے ہیں، عید کے دن بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر ہماری مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں،روکھی سوکھی کھا کر بھی اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں۔‘‘

شام گئے عائزہ، عاشر اور حوریہ تھکے ہارے گوشت بانٹ کر آئے اور رات کے کھانے میں مرغّن کھانوں کی بہ جائے خوشی خوشی سادہ ساکھانا کھایا۔عاشر نے کھانے سے فارغ ہو کر عائزہ ، حوریہ کو مخاطب کیا۔’’عید کا اصل مزا تو آج آیا ہے۔واقعی حقیقی خوشی اور قلبی سکون دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور مجھے یہ سکون میری گڑیا رانی، چھوٹی بہن کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے عاشر نے حوریہ کا ماتھا چوم لیا۔ حوریہ کو یقین تھا کہ حج سے واپس آکر جب امّی کو پتا چلے گا کہ اُن لوگوں نے اپنے حصّے کا گوشت بھی غریبوں میں تقسیم کر دیا ہے، تو وہ غصّہ کرنے کی بہ جائے خوشی کا اظہار کریں گی۔ حوریہ نے سوچ لیاتھا کہ وہ ہر سال ’’اپنے حصّے ‘‘ کی ایسی ہی تقسیم جاری رکھے گی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے انسان کی مدد کا ذریعہ بنایا ہے۔ رازق تو وہی پاک ذات ہے، بس وہ وسیلے بنا دیتا ہے۔ اس لیے ہم سب کی ذمّے داری ہے کہ اپنی خوشیوں میں اُن لوگوں کا خاص خیال رکھیں ،جو محنت کرتے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے کہ در اصل یہی لوگ ہماری توجّہ اور مدد کے اصل مستحق ہیں۔