کچھ تلخ تاریخی حقائق؟

August 16, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.


اگست کا مہینہ آتا ہے تو اگست 1947کے حوالے سے پڑھی ہوئی لاتعداد باتیں ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ 72برس گزرنے کےبعد ہماری نوجوان نسلیں اور عام شہری ان تلخ حقائق کو بھول چکے ہیں جن سے برطانوی حکمرانوں کی پاکستان سے کی گئی بے انصافیاں اور ہجرت کے آگ و خون کی داستانیں وابستہ ہیں۔ خیال آتا ہے کہ اپنی تاریخ کے شعور کو زندہ رکھنے کیلئے کم سے کم نمایاں حقائق کا ذکر ہوتا رہنا چاہئے۔ تاریخی حوالے سے کشمیر (ک) پاکستان کے نام اور وجود کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ آپ کو علم ہے کہ جب کیمبرج میں چوہدری رحمت علی نے 1933میں پاکستان کا نام تجویز کیا، پاکستان موومنٹ شروع کی اور راتوں کی نیند حرام کرکے پاکستان کے حق میں دلائل لکھ لکھ کر برطانوی پارلیمینٹ کے اراکین کو بھجوانے شروع کئے تو اس نام کا درمیانہ حصہ (ک یاK ) تھا جس کا مطلب کشمیر تھا۔ مسلم اکثریتی صوبے یا علاقے جو آپس میں جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے تھے، پر مشتمل پاکستان کا تصور تشکیل دیا گیا تھا اور اسی تصور کو مقبول بنانے کیلئے چوہدری رحمت علی نے NOW OR NEVER شائع کی تھی جس کا آغاز ایک قرآنی آیات سے ہوتا ہے۔ گول میز کانفرنس میں اس اسکیم کو طلبہ کی اسکیم قرار دیا گیا اور قراردادِ پاکستان 23مارچ 1940میں مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد مملکت یا مملکتوں کا مطالبہ تو کیا گیا لیکن اس مملکت کو کوئی نام نہ دیا گیا تھا۔ بیگم مولانا محمد علی کے علاوہ کسی مقرر نے بھی اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر نہ کیا لیکن ہندو پریس نے قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان کہہ کر بقول قائداعظم مسلم لیگ کی مشکل آسان کر دی۔ چنانچہ دسمبر 1940میں مسلم لیگ نے اپنے اس مطالبے کو سرکاری طور پر پاکستان کا نام دیدیا اور ہر سال 23مارچ کو یومِ پاکستان منانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کا لفظی مطلب تھا پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ، اس حوالے سے پاکستان کے تصور پر جو گولہ باری اور فقرے بازی ہوئی وہ بذات خود ایک دلچسپ باب ہے۔ جب پاکستان کشمیر (ک) کے بغیر معرضِ وجود میں آگیا تو کہا گیا کہ کشمیر کے بغیر پاکستان ’’پاستان‘‘ رہ گیا ہے۔ بہرحال آزاد کشمیر کی موجودگی میں(ک) تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان کا تصور کشمیر کے بغیر ادھورا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دسمبر 1947میں ہندوستان کا گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اپنی ہی لگائی ہوئی آگ پر قابو پانے کے بہانے پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان سے مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرنے لاہور آیا تو قائداعظم کا استدلال نہایت واضح تھا۔ پنڈت نہرو آخری لمحے بیمار پڑ گئے چنانچہ وہ مائونٹ بیٹن کے ساتھ نہ آ سکے۔ اس میٹنگ میں قائداعظم نے مائونٹ بیٹن پر واضح کیا کہ جس مسلمان اکثریتی اصول کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے اسی اصول کے تحت کشمیر کا الحاق ہندوستان سے نہیں ہو سکتا۔ مائونٹ بیٹن کی اپنی لگائی ہوئی آگ کو سمجھنے کے لئے تین بنیادی کتابوں کا مطالعہ مستحب ہے۔ اول، تقسیمِ ہند...افسانہ اور حقیقت، مصنف ایچ ایم سیروائی سابق ایڈووکیٹ جنرل مہاراشٹر ترجمہ ڈاکٹر صفدر محمود، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔ دوم، ظہورِ پاکستان چوہدری محمد علی۔ سوم، Disastraus Turilightجنرل شاہد حامد پی ایس ٹو جنرل آکن لک سپریم کمانڈر... ان تینوں کتابوں کے مطالعے سے مائونٹ بیٹن کے کردار ریڈکلف ایوارڈ میں آخری وقت پر تبدیلیوں اور انتظامیہ کی ناکامی کے سبب خون کی ندیاں بہنے پر روشنی پڑتی ہے۔ جنرل شاہد حامد وائسرائے لاج میں مقیم تھے اور مائونٹ بیٹن کی سر ریڈ کلف سے خفیہ ملاقات کے امین ہیں۔ اسی ملاقات میں مائونٹ بیٹن نے دبائو ڈال کر بہت سے مسلمان اکثریتی علاقے ہندوستان کو دلوائے اور اس طرح ہندوستان کا کشمیر سے زمینی رابطہ ہموار ہوا ورنہ اصلی ایوارڈ کے مطابق اگر یہ علاقے پاکستان کو مل جاتے تو ہندوستان کا کشمیر سے زمینی رشتہ منقطع ہو جاتا۔ سیروائی کی کتاب اعلیٰ درجے کی تحقیقی کتاب ہے جس میں برطانوی ریکارڈ اور اوریجنل دستاویز کے حوالوں سے ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے پاکستان پر مسلط کی گئی ناانصافیوں کی داستان بیان کی گئی ہے۔ چوہدری محمد علی عینی شاہد بھی ہیں اور درونِ خانہ واقعات سے آگاہی بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے جن نقشوں کا ذکر کیا ہے وہ ناقابل تردید شواہد ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ 9اگست سے 15اگست 1947کے درمیان ایوارڈ میں تبدیلی کرکے کچھ اہم مسلمان اکثریتی علاقے ہندوستان کو دیدیئے گئے۔ پنجاب بائونڈری کمیشن کے رکن جسٹس دین محمد نے حکومت پاکستان کو اطلاع دی کہ جب فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلوں کا معاملہ بائونڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوا اور کمیشن کے پاکستانی اراکین نے دلائل دینا شروع کئے تو ریڈکلف نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ ایسے اظہر من الشمس معاملے کے بارے میں دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ چوہدری محمد علی لکھتے ہیں کہ 9اگست 47ء کو انہیں قائداعظم کا پیغام ملا کہ انہیں ضلع گورداسپور، امرتسر، جالندھر میں مسلم اکثریت علاقوں کے حوالے سے تشویش ہے۔ آپ دلّی میں لارڈ اسمے کومل کو پیغام دیں کہ اگر پاکستان سے یہ ناانصافی کی گئی تو اس سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ چوہدری محمد علی وائسرائے کے دفتر گئے اور لارڈ اسمے کے کمرے میں آویزاں ایک نقشہ دیکھا جس پر پنسل سے لکیریں کھینچی گئی تھیں۔ اگرچہ اس سے قائداعظم کی تشویش کی تصدیق ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود فیروز پور اور زیرہ کی مسلم اکثریتی تحصیلیں اس وقت تک پاکستان کو مل رہی تھیں۔ سیروائی نے تفصیل سے لکھا ہے کہ پنجاب کے انگریز گورنر جنکز نے مائونٹ بیٹن سے ایوارڈ کے اعلان سے قبل ان علاقوں کی تفصیل مانگی تھی جو پاکستان کو ملنا تھے تاکہ وہ امن عامہ قائم رکھنے کیلئے اقدامات کر سکے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب موڈی پنجاب کا گورنر بنا تو اسے اپنے پیشرو جنکز کے کاغذات میں بھی وہی نقشہ ملا جو لارڈ اسمے کے دفتر میں آویزاں تھا۔ سیروائی شواہد اور تحقیق سے ثابت کرتا ہے کہ ریڈکلف ایوارڈ میں مائونٹ بیٹن کے دبائو کے تحت آخری وقت میں تبدیلیاں کرکے پاکستان کو کئی مسلم اکثریتی علاقوں سے محروم کر دیا گیا اور ہندوستان کو کشمیر میں داخلے کا راستہ دیدیا گیا۔ اسی راستے سے ہندوستان نے اپنی فوج کی ’’پلیشا‘‘ کو اگست، ستمبر میں کشمیر میں تعینات کیا جس کی تفصیل الیسٹر لیمب کی کتاب میں موجود ہے۔ الحاقی معاہدے ہونے سے قبل جب ہندوستان نے اپنی افواج بذریعہ جہاز سرینگر بھجوائیں تو ’’پلیشا‘‘ فورس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ کانگریسی اور برطانوی قیادتوں نے پاکستان کے جسم پر گہرے زخم لگائے اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا۔ جذبہ جہاد سے سرشار کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے بھی نریندر مودی کا خیال ہے کہ وہ اسے قوت سے دبا دے گا لیکن عالمی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جنرل ڈائر آزادی کی امنگ کو کچل سکا نہ مودی سرکار کچل سکے گی۔ شہیدوں کی قربانیاں ایک نہ ایک دن رنگ لائیں گی، چاہے اس میں کئی نسلیں آنکھوں میں خواب سجائے دنیا سے رخصت ہو جائیں۔