عثمان ذُوالنُورین رضی اللہ عنہ

August 20, 2019

جنت البقیع میں حضرت عثمان غنیؓ کی قبر مبارک

مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی

شہیدِ مظلوم، سیدنا عثمان غنی ؓ کو حضور اکرم ﷺ نے کئی بار جنت کی بشارت دی ۔ آپ ؓ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے عظیم المرتبت صحابہ کرام ؓ میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی دو بیٹیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔آپ ؓ نے خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا،طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں ،جس کی وجہ سے آپ ؓ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہیں، آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں،ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے، میرے ساتھی جنت میں عثمان غنیؓ ہوں گے۔

اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی ہے، آپ ؓ کا ظاہری حسن دو عظیم المرتبت انبیائے کرام ؑ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضور اقدس ﷺ کے مشابہ تھا۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے،سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔آپ کا تعلق قریش کی شاخ ’’بنوامیہ‘‘ سے ہے، سیدنا عثمان غنی ؓ خوب صورت ، با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے ، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے آپؓ جب لباس زیب تن کر کے ’’عمامہ‘‘ سے مزین ہوتے تو انتہائی خوب صورت معلوم ہوتے، اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ’’شرم وحیا‘‘ کی صفت میں بے مثال تھے۔

امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقع پر سیدنا عثمان غنیؓ ، حضور اقدس ﷺ کی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیے گئے۔ اس موقع پرحضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کے لیے میرے ہاتھ پر بیعت کرے ؟ اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حضور اکرم ﷺ کے دستِ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی۔ اس پر حضور اقدس ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: یہ ’’بیعت‘‘ عثمانؓ کی طرف سے ہے، اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔ حضرت سیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثوم ؓ کا نکاح بھی سیدنا عثمان غنیؓ سے کر دیا ،اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی (ام کلثومؓ) کا نکاح بھی آپؓ (عثمانؓ) سے کردوں ۔

جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو اس میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔ اس موقع پر صدق و وفاء کے پیکر خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور اقدس ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر دیا ، ایک روایت کے مطابق سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ،ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کے لیے اللہ کے راستے میں دیں۔ حضور اقدس ﷺ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ ﷺ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹتے پلٹتے اور فرماتے تھے: آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی عمل انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے لیے دُعا فرماتے رہے ،آپ ﷺ فرماتے ! اے اللہ، میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا! اے عثمان، اللہ تعالیٰ نے تمہارے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں جو تم سے ہوچکے یا قیامت تک ہوںگے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کی بغل مبارک ظاہر ہو جائے، مگر عثمانِ غنی ؓ کے لیے جب آپ ﷺ دعا فرماتے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔

سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ حضور اقدس ﷺ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے،حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کے لیے سوتے اور تقریباً تمام رات عبادت میں مصروف رہتے،آپؓ ’’صائم الدہر‘‘تھے، سوائے ممنوع دنوںکے کسی دن روزے کا ناغہ نہ ہوتا ، جس روز آپؓ شہید ہوئے اس دن بھی روزے سے تھے، ہر جمعۃ المبارک کو دو غلام آزاد کرتے۔ایک مرتبہ سخت قحط پڑا، تمام لوگ پریشان تھے اسی دوران حضرت عثمان غنیؓ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے آئے تو مدینے کے تمام تاجر جمع ہوگئے۔ تاجروں نے کئی گنا زائد قیمت پر اس غلے کو خریدنے کی کوشش کی، لیکن آپؓ نے فرمایا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے۔ تم سب لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میںنے یہ سب غلہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ’’فقرائے مدینہ‘‘ کو دے دیا ۔

سیدناحضرت عثمان غنیؓ نے 24ھ میں نظام خلافت کو سنبھالا اور خلیفہ مقرر ہوئے تو شر وع میں آپؓ نے22لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ اس میں سے بیش تر ممالک فتح ہوچکے تھے، لیکن ابھی یہاں مسلمان مستحکم نہیں ہوئے تھے اور خطرہ تھا کہ یہ ممالک اور ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں نہ چلی جائیں، لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے فوج کو جدید عسکری انداز میں ترتیب دیا ، آپ ؓ کے دور خلافت میں حضرت امیر معاویہؓ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے ’’بحر اوقیانوس‘‘ میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا، اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری کرکے آپ ؓ کی فوجوں نے فرانس ویورپ کے کئی ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچا یا ۔ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنیؓ کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے درپے تھے اور تقریباً ساڑھے سات سو بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بنا کر ملک میں بدامنی پیدا کر کے مدینہ منورہ پر قبضہ کرلیا۔اس دوران سیدناحضرت علی المرتضیٰؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے باغیوں کا سر کاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے اجازت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا ! مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ حضور ﷺ کا خلیفہ ہوں اور خود ہی آپ ﷺ کی امت کا خون بہاؤں۔ مدینے میں بلوائیوں نے بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کےبیش ترافراد حج پر گئے ہوں اور صرف چند افراد یہاں ہوں، تاکہ ایسے وقت میں امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو خلافت سے دست بردار کر واکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اسلام کے پر شکوہ ’’قصرِ خلافت‘‘ کو مسمار کرتے ہوئے، حضور اقدس ﷺ کے شہر کو آگ و خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکز یت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا ! اے عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کی قمیص پہنائے گا، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا، یہاں تک کہ مجھ سے آملو (شہید ہو جاؤ) چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوںنے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا ! مجھ سے حضور اقدس ﷺ نے عہد لیا تھا(منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے ،تم نہ اتارنا) میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، باغیوں نے آپ ؓکے گھر کا محاصرہ کیا۔حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔محاصرے کے دوران چالیس روز تک آپؓ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی ؓ کو جمعۃ المبارک کے روز ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک لاکھوں مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔