ویڈیو کیس فیصلہ، نہیں لگتا نواز شریف کی سزا متاثر ہوگی،فوادچوہدری

August 24, 2019

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہاہے کہ ویڈیو کیس فیصلے کا نواز شریف کیس کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے،مجھے نہیں لگتا کہ اس سے نواز شریف کی سزا متاثر ہوسکے گی،ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں توقع تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جج ارشد ملک کے فیصلے کو ختم کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہمارے وکلاء آگے پروسیڈ کریں گے،سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر نے حلف نہ لے کر ادارے کو بچالیا ہے،انہوں نے دانشمندانہ اور جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ان ارکان سے حلف لینے سے انکار کیا ۔پروگرام میں سابق اٹارنی جنرل عرفان قادراورماہر قانون رشید اے رضوی نے بھی اظہار خیال کیا۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ جج ویڈیو اسکینڈل جج اور عدالت کا معاملہ ہے، ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ جج کے خلاف کوئی سازش ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ تصدیق کرتا ہے کہ یہ ایک جج کے کنڈکٹ کا ذاتی معاملہ تھا، نواز شریف کیخلاف کوئی بھی کیس زبانی شواہد پر نہیں ہے، نواز شریف کیخلاف تمام کیسوں میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں، اس میں کوئی ایسا معاملہ نہیں جس میں انسانی عمل دخل ہو، ویڈیو کیس فیصلے کا نواز شریف کیس کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے،مجھے نہیں لگتا کہ اس سے نواز شریف کی سزا متاثر ہوسکے گی۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف اورا ن کی فیملی نے جائیدادوں کے مالک ہونے کا اعتراف کیا ہے، نواز شریف اپنی جائیداد کے ذرائع نہیں بتاپارہے ہیں، نواز شریف جائیداد کے ذرائع کل بتادیں تو کیس ختم ہوجائے گا، نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں شواہد پیش کرنے ہیں، ہائیکورٹ آرڈر کرتی ہے تو جج کی ویڈیو کا فارنزک کروانا چاہئے تھا، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو دیکھ لے، اسلام آباد ہائیکورٹ اب اس معاملہ کو دیکھے گی اورا ٓگے لے کر جائے گی۔فواد چوہدری نے کہا کہ ن لیگ نے چیئرمین نیب کی ویڈیو پر کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کریں گے لیکن ہم انتظار کرتے رہے ن لیگ نے بات ہی نہیں کی، شہباز شریف کہتے ہیں ویڈیو سے متعلق مریم کو پتا ہوگا، مریم کہتی ہیں مجھے بھی نہیں پتا ہے، ویڈیوز لے کر آنے والے ہی بھاگ گئے تو کس نے تحقیق کرنی ہے، ہائیکورٹ ویڈیو کی فارنزک کا حکم کرے گی تو اس پر عمل کریں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیخلاف فیصلے کے اصل بینیفشری پاکستان کے عوام ہیں،نواز شریف کے کیس کا جج کی ویڈیوز سے کوئی تعلق نہیں ہے، حسن نواز اور حسین نواز پاکستان واپس آئیں اورا پنا حساب کتاب دیں یا دوسرا طریقہ پلی بارگین کا ہے، بابر اعوان کا کیس بھی ہائیکورٹ میں ہے وہ شواہد پرکھ لے گی۔ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف کیخلاف ٹرائل سپریم کورٹ کی فیصلے کی روشنی میں اور سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں ہوا ہے، جج ارشد ملک کے مس کنڈکٹ پر سپریم کورٹ کے ریمارکس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے انہیں معطل اور ٹرانسفر کرنے کے بعد وہ کہیں نہیں کھڑے ہیں لیکننواز شریف کیخلاف ان کا فیصلہ برقرار ہے جو ایک کھلا تضاد ہے، ہمیں توقع تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جج ارشد ملک کے فیصلے کو ختم کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہمارے وکلاء آگے پروسیڈ کریں گے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت جج کی ویڈیو کی فرانزک کرواچکی ہے، حکومت کو پتا چل گیا ہے کہ یہ ویڈیو اصل ہے لیکن وہ اس کا اقرار نہیں کررہی ہے، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ اب دھوکہ ہورہا ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ صدر پاکستان کا الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر میں کسی قسم کا کردار نہیں ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ تمام اختیارات وزیراعظم پاکستان، اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی کمیٹی کے پاس منتقل ہوگئے ہیں، اگر کسی جگہ آئین خاموش ہے تو اس کے باوجود صدر پاکستان کا الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر میں کردار نہیں بنتا ہے، صدر پاکستان نے پراسرار طریقے سے خاموشی کے ساتھ آرٹیکل 58/B1کے تحت براہ راست اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر کر کے خطرناک دروازہ کھول دیا ہے، صدر مملکت کا یہ عمل آرٹیکل 213 اور 215کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا باقاعدہ طریقہ کار بتایا گیا ہے، الیکشن کمیشن ارکان کے تقرر کے عمل میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا تھا تو آئینی ترمیم کر کے نئے طریقہ کار طے کرلیا جاتا، الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر میں آٹھ مہینے ضائع کیے گئے، اس عرصہ میں تو لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن پارلیمنٹ سے ستائیسویں ترمیم میں لاسکتے تھے، آئین کی شق 58/B1اٹھارہویں ترمیم میں ختم ہوگئی تھی جسے صدر مملکت نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔