امیزون میں آتشزدگی۔ ایک عالمی بحران

September 04, 2019

جنوبی امریکہ میں واقع امیزون برساتی جنگل (Amazon Rainforest) جسے امیزون جنگل بھی کہا جاتا ہے، کا شمار دنیا کے سب سے بڑے اور گھنے جنگلات میں ہوتا ہے۔ یہ جنگل 55لاکھ اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ امیزون کا یہ جنگل آج کل دنیا بھر میں خبروں کی زینت بنا ہوا ہے جس کی وجہ اس کے جنگلات میں لگنے والی وہ آگ ہے جس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور جس نے عالمی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیزون کا یہ جنگل میرے لئے اس لئے بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ کچھ سال قبل مجھے اس جنگل میں تقریباً ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا جو میری زندگی کے یادگار دن تھے۔

کبھی کبھار شہر کی پُرآشوب اور ہنگامہ خیز زندگی سے اُکتا کر دل چاہتا ہے کہ آپ کسی ایسے مقام کی طرف رخ کریں جہاں سکون کے کچھ لمحات میسر آسکیں اور انسان کو اپنے بارے میں سوچنے کیلئے کچھ وقت درکار ہو۔ میں بھی کچھ سال قبل کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھا اس لئے میں نے برازیل جاکر ’’امیزون جنگل‘‘ میں کچھ دن گزارنے کا فیصلہ کیا۔ برازیل جانے سے قبل مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک بڑے خطے کا نام ہے جو براعظم جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 85لاکھ اسکوائر کلومیٹر ہے اور اس کا 40فیصد حصہ امیزون جنگل پر مشتمل ہے۔ طیارے کے پائلٹ نے جب برازیل کے شہر منائوس (Manaus) کے ایئر پورٹ پر اترنے کا اعلان کیا تو جہاز کی کھڑکی سے حد نظر تک پھیلا ہوا گھنا جنگل اور درمیان میں بہتا ہوا دریائے امیزون ایک دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ دریائے امیزون کا شمار دنیا کے بڑے اور طویل ترین دریائوں میں ہوتا ہے جو جنگل کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اپنے اس دورے کو یادگار بنانے کیلئے میں نے امیزون جنگل کے درمیان بنے ہوٹل میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔ چاروں طرف سے درختوں اور لکڑی کی باڑ میں گھرا یہ ہوٹل اپنی نوعیت کا منفرد ہوٹل تھا جہاں درختوں کی اونچائی پر کمرے بنائے گئے تھے۔ میں نے اتنا پُرسکون ماحول پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ امیزون جنگل کے کچھ علاقے اتنے گھنے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ یہاں آج بھی دنیا سے لاتعلق جنگلی قبائلی باشندے ’’ریڈ انڈینز‘‘ رہائش پذیر ہیں۔

امیزون جنگل رواں سال جولائی سے آگ کی لپیٹ میں ہے جس نےاس کے ایک بڑے حصے کو جلاکر راکھ کردیا ہے۔ جنگل میں لگی آگ کے پھیلائو اور بلندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2700کلومیٹر دور واقع برازیل کے شہر سائوپولو کے آسمان کو بھی دھوئیں کے بادلوں نے سرمئی کردیا ہے جبکہ جنوبی امریکہ کے دیگر ممالک بولیویا اور پیرا گوائے کے علاوہ امیزون جنگلات میں صدیوں سے رہائش پذیر جنگلی قبائلی باشندے ’’ریڈ انڈینز‘‘ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

رواں سال امیزون جنگلات میں 78000سے زائد جگہوں پر آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ یہ جنگلات چونکہ گیلے ہوتے ہیں اور ان میں قدرتی طور پر آگ لگنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، اِس لئے اتنے زیادہ مقامات پر لگنے والی آگ کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور برازیل کے صدر جیر بلوسو مارو جنہوں نے گزشتہ سال ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے، کو عالمی سطح پر جنگل میں لگنے والی آگ پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ امیزون جنگل میں سینکڑوں جگہ پر لگنے والی آگ برازیلی صدر کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد کاشتکاری اور کان کنی کیلئے زمین کا حصول ہے۔ متعدد یورپی ممالک نے امیزون جنگلات کی آگ بجھانے میں سست روی اختیار کرنے پر بھی برازیلی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور برازیل کے ساتھ باہمی تجارت پر نظرثانی کی دھمکی دی ہے۔واضح رہے کہ برازیلی صدر متعدد بار اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ امیزون کے جنگلات کے کچھ حصے مائننگ کیلئے بڑی کارپوریشنز کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم انہوں نے خود پر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی گروپ کی ان کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔

امیزون جنگلات کی مثال ایک پھیپھڑے کی مانند ہے جہاں موجود 30لاکھ اقسام کے درخت اور پودے دنیا کی 20فیصد سے زائد فضائی آلودگی کو جذب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان جنگلات میں لگی آگ بین الاقوامی بحران کی شکل اختیار کر گئی ہے جس سے دنیا بھر کے کئی ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ فرانس میں جی سیون کے ہونے والے حالیہ اجلاس میں بھی برازیل کے امیزون جنگلات میں لگنے والی آگ زیر بحث آئی۔ عالمی سطح پر تنقید کے بعد برازیلی صدر نے امیزون جنگلات کی آگ پر قابو پانے اور آگ لگانے کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث شرپسندوں کے خلاف کریک ڈائون کیلئے فوج کو طلب کرلیا ہے تاہم آگ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ اس بجھنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آگ سے متاثر ہونے والے جنگلات کی زمینوں پر نئے جنگلات بنائے جائیں گے یا انہیں کارپوریشنز یا کاشتکاروں کے حوالے کردیا جائے گا۔ دنیا کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے امیزون جنگل میں بھڑکنے والی آگ یقیناً ایک عالمی بحران ہے اور اگراس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف کی جانے والی کوششوں پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔