مظلوم کشمیری عملی اقدامات کے منتظر

September 15, 2019

مظفر آباد کے جلسہ عام میں آزاد کشمیر کے باسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چھ ہفتوں سے محصور اور درندہ صفت بھارتی افواج کے وحشیانہ مظالم کے شکار 80لاکھ کشمیری مسلمانوں کے لئے یقیناً امید افزاء ہوں گے کہ ’’مجھے پتا ہے آپ کنٹرول لائن کی طرف جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی اس طرف نہیں جانا، میں آپ کو بتاؤں گا کہ کب جانا ہے، پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دیں اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے دیں، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیریوں کو مایوس نہیں کروں گا، کشمیریوں کے لئے ایسا اسٹینڈ لوں گا جو آج تک کسی نے نہیں لیا‘‘۔ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق اور سات دہائیوں سے جاری ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے بلاشبہ کوئی ایسا ہی موقف اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے جو عالمی برادری کے لئے اس تنازع کو اسی طرح منصفانہ طور پر حل کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہنے دے جیسے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے تنازعات مقامی باشندوں کی خواہشات کے مطابق حل کیے گئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا حقائق کے عین مطابق ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لئے پوری وادی کو قیدخانے میں بدل کر اور شرمناک بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورتوں اور بچوں تک پر سفاکانہ مظالم کا نیا سلسلہ شروع کرکے مودی سرکار نے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نئی جان ڈال دی ہے، اس طرح یہ معاملہ کئی دہائیوں کے بعد ازسر نو بین الاقوامی توجہ کا محور بن گیا ہے۔ پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے کا زیر غور آنا اور رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کی ضمانت دینے والی عالمی ادارے کی قراردادوں کے آج بھی مؤثر ہونے کا تسلیم کیا جانا، نظری سطح پر ایسی غیرمعمولی کامیابی ہے جس کا مودی حکومت کے تازہ غاصبانہ اقدامات سے پہلے تصور بھی مشکل تھا۔ یورپی یونین، برطانوی پارلیمنٹ، امریکی سینیٹرز اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت کا بھرپور اظہار ثابت کرتا ہے کہ عالمی برادری بھارت کی دھاندلی اور ہٹ دھرمی کو پوری طرح محسوس کررہی ہے۔ بات فی الواقع یہ ہے کہ مودی کے حالیہ فیصلوں کے بعد مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والے حالات نے کسی کے لئے بھی یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں چھوڑی کہ کشمیر کے لوگ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کے بھارت میں انضمام کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کا عکاس ہے لیکن یہ بھی بہرحال حقیقت ہے کہ آج کی دنیا پر اخلاقی اقدار اور حق و انصاف کے اصولوں کے بجائے مادّی مفادات اور معاشی مصلحتوں کی حکمرانی ہے۔ ’’رائٹ از مائٹ‘‘ کے بجائے ’’مائٹ از رائٹ‘‘ ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ سیکولر بھارت کو تنگ نظر ہندو ریاست بنانے والے نریندر مودی کو یہ اطمینان حاصل ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی علم بردار ہونے کی دعویدار عالمی برادری کی کشمیریوں اور پاکستان کے موقف کے لئے حمایت زبانی جمع خرچ سے اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ اور ایسے ہی دیگر اقدامات سے دنیا پر یہ واضح نہ ہو جائے کہ پاکستان کشمیریوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے عملی اقدام بھی کرے گا۔ بھارتی حکمرانوں کا گمان ہے کہ حکومت پاکستان کیلئے ایسا کوئی قدم اٹھانا مشکل ہے لہٰذا اس کی من مانیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ اس تاثر کو دور کرنا ہی وزیراعظم عمران خان کا اصل امتحان ہے کیونکہ بقول اقبال ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد‘‘۔ 80لاکھ کشمیری ہی نہیں کرہ ارض پر بسنے والے تمام انصاف پسند لوگ منتظر ہیں کہ اپنی یقین دہانیوں کو پورا کرنے کی خاطر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وہ کیاغیر معمولی موقف اختیار کرتے اور پھر کون سے نتیجہ خیز اقدامات عمل میں لاتے ہیں۔