’میاں غلام شاہ کلہوڑو‘ ان کا دور حکومت چار ادوار پر مشتمل رہا

September 17, 2019

کلہوڑا خاندان کا شجرہ نسب بغداد کے عباسی خلفاء سے ملتا ہے۔ مغلیہ دور حکومت میں، سندھ میں عباسی خلافت قائم کرنے کی تحریک میاں آدم شاہ کلہوڑو نے شروع کی جس میں ان کے مرشد محمد جونپوری نے ان کی مدد اور رہنمائی کی۔ میاں آدم شاہ کلہوڑو کو اس کی پاداش میں مغلیہ دور حکومت میں گرفتار کیا گیا اور ان کو ملتان کے قلعے میں سزائے موت سنا کر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو سکھر شہر میں ایک اونچے مقام پہ دفن کیا گیا جو’’ آدم شاہ کی ٹکری ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ میاں آدم شاہ کے بعدمدکورہ تحریک کو ان کے دو بیٹوں میاں الیاس اور میاں شاہل محمد نے جاری رکھا۔ تاریخ میں اس تحریک کو میانوال تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

میاں الیاس کی طبعی موت اورمیاں شامل محمد کومغل سلطنت کے حامیوں نےشہید کردیا۔ میاں الیاس کے بڑے فرزند میاں نصیر محمد نے اپنے اجداد کی تحریک کو جاری رکھا ۔ انہیں بھی گرفتار کر کے دہلی کے قلعے میں نظربند کردیا گیا۔ ان کو بھی سزائے موت سنائی گئی مگر سزا پر عمل درآمد کے لیے دہلی سے گوالیار کی طرف سفر کے دوران وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور دادو کے علاقے خیرپور ناتھن شاہ سے آگے خانپور سے چند میل کی دوری پر رہائش پذیر ہوئے۔ انہوں نے یہاں سے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ان کی یہ تحریک دن بہ دن تقویت پکڑتی گئی۔ مگر وہ اپنی زندگی میں کلہوڑا عباسیوں کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے بڑے بیٹے میاں دین محمد نے تحریک کی کمان سنبھالی۔

مغل بادشاہ ، جلال الدین اکبر کے پوتے شہزادہ معیزالدین جو ملتان کا گورنرتھا، اس نے انہیں دھوکے سے ملتان بلواکر سیوھن کے قلعے میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ میاں دین محمد کے چھوٹے بھائی اور میاں نصیر کے منجھلے بیٹے میاں یار محمد نے میاں دین محمد کی شہاد ت کے بعد بغاوت کا اعلان کردیا اور اپنے خاندان کو قلات کے ایک محفوظ مقام پر منتقل کرکے مغل سلطنت کے خلاف جنگ شروع کردی ۔ انہوں نےبادشاہ کی فوج کو ناکوں چنے چبوادئیے۔بار بار کی ہزیمت سے تنگ آکر مغل بادشاہ نے ان کی حکومت کو اس شرط پہ تسلیم کیا کہ سندھ میں وہ ان کے باجگزار ہوں گے۔ اس طرح سندھ میں کلہوڑاعباسی حکومت کا باقاعدہ آغاز میاں یار محمد کلہوڑو سے ہوا۔انہوںنے اٹھارہ سال تک حکومت کی ۔ 15ذی القعد 1131ہجری کو وہ دنیا سے کوچ کرگئے ۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے میاں نور محمد کلہوڑو تخت نشیں ہوئے ، جنہوں نے 35 سال حکومت کی۔

ان کے دور حکومت میں مغل سلطنت کافی کمزور حالت میں تھی ، جس کا فائدہ اٹھا کر نادر شاہ درانی اور اس کے بعد افغان حکمراںاحمد شاہ ابدالی نے سندھ پر اپنی حاکمیت مسلط کردی اور کلہوڑا حکمرانوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرکے ان سے خراج وصول کرنا شروع کیا۔مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں انہیں فوج کشی کی دھمکیاں دی جاتیں۔میاں نور محمد کلہوڑو کے سات بیٹے تھے۔ نورمحمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے میاں مراد یاب کلہوڑو حکمراں بنے ۔ ان کا دور حکومت تین سال پر محیط رہا۔ افغان حکومت کی جانب بے جا مطالبات اورخراج طلب کیے جانے کی وجہ سے وہ اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے حکومت سے دست بردار ہوکر مسقط کی جانب ہجرت کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے اپنا تمام مال و اسباب لانچوں کے زریعے مسقط روانہ کر دیا، مگر مخبری ہونے کے باعث امراء کےطاقتور طبقے نے جو’’ بادشاہ گر‘‘ کا کردار ادار کرتا تھا، انہیں گرفتار کرکے حکومت سے معزول کردیا۔

ان کا دور حکومت تین سال کے عرصے پر محیط تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی میاں غلام شاہ کلہوڑو کو ان کی جگہ تخت پہ بٹھا دیا گیا ۔ اس دور میں سندھ پر حکم رانی کے لیے افغان دربارسے سندلینا پڑتی تھی۔ میاں غلام شاہ امراء اور عوام کی حمایت کی وجہ سے حکم راں بنے تھے لیکن افغان دربار سے انہیں ’’سند حکمرانی ‘‘ نہیں ملی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں عطر خان نے افغان دربار سے اپنے نام کی سند حاصل کرلی اور افغانوںکی حمایت سے سندھ میں اقتدار سنبھالنے آگئے ۔ میاں غلام شاہ کوحکومت سنبھالے ہوئے ابھی دو ماہ دس دن ہی ہوئے تھے کہ ان کے بھائی میاں عطر خان افغان فوج کے ساتھ سندھ میں وارد ہوئے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میاں غلام شاہ کے حامی بھی ساتھ چھوڑ گئے، جس کی وجہ سے انہیں حکومت چھوڑنا پڑی ۔ میاں غلام شاہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ8 نومبر 1757 کوبہاولپور پہنچےجہاں امیر بہاولپور،مبارک خان عباسی نے ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا۔

میاں غلام شاہ کی حکومت کا پہلا دور انتہائی مختصر رہا۔7 جولائی 1758 میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے بہاولپور کے حکم راں کی مدد اپنا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے دونوں بھائیوں میاں مراد یاب خان اور میاں عطر خان کو شکست دے کر سندھ کے ایک تہائی حصہپر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے بھائی قلات کی جانب فرار ہوئے مگر انہیں خان آف قلات نے گرفتار کرلیا، جنہیں افغان حکومت کے دباؤ پر آزاد کردیا گیا۔ عطر خان اور مراد یاب خان افغان حکومت کی مدد سے سندھ پر دوبارہ حملہ آور ہوئے۔جنگ میں شکست کے آثار دیکھ کر میاں عطر خان نے اپنے بھائی میاں غلام شاہ کو صلح کا پیغام بھیجا، جس کے تحت سندھ کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔

شاہ گڑھ سے نصرپور تک کا علاقہ جس میں ٹھٹھہ بھی شامل تھا، میاں غلام شاہ کو دے دیا گیا جب کے بقیہ حصے میاں مراد یاب اور میاں عطر خان کے حصے میں آئے۔ عطر خان اور ان کے دوسرے بھائی احمد یار خان عباسی کی سندھ کا مطلق العنان حکم راں بننے کی خواہش کی وجہ سے ان کی غلام شاہ سے دوبارہ چپقلش شروع ہوگئی اوراحمد یار خان افغان حکومت کی امداد حاصل کرنے کے لیے افغانستان پہنچا ۔ افغان حکومت نے احمد یار خان کو ایک بار پھر سند حکمرانی تفویض کرکے سندھ کا کا اقتدار سنبھالنے کے لیے بڑی فوج کے ساتھ سندھ بھیجا ۔

میاں غلام شاہ کلہوڑو نےنواب بہاولپور کی مدد سے افغان لشکر کا اوباڑو کے مقام پر مقابلہ کیا اور دونوں بھائیوں کو عبرتناک شکست دی۔ افغان کمانڈر بہادر خان عالیانی میدان جنگ میں مارا گیا اور سندھ کے خطے پر میاں غلام شاہ کلہوڑو کی حکم رانی قائم ہوگئی۔ افغان حکومت نے میاں غلام شاہ کلہوڑو کا سندھ پر حق حکم رانی تسلیم کرتے ہوئے سند قبولیت عطا کی ۔ افغان دربار کی طرف سے انہیں’’ حزب یار جنگ شاہ وردی خان‘‘ کا لقب دیا گیا، بعد ازاں انہیں ’’صمصام الدولہ‘‘ کا ،خطاب بھی کیا گیا۔ ان کا یہ دور حکومت تیرہ سالوں پر محیط رہا۔

غلام شاہ عباسی کلہوڑو نے اپنے دونوں بھائیوں کو معاف کرکے خطے کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کردی۔اس دورحکومت میں انہوں نے سندھ میں بے شمار تعمیراتی کام کرائے جس کی وجہ سے سندھ کی تاریخ میں وہ ’’سندھ کے شاہ جہاں‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے۔ انہوں نے حیدرآباد شہربسا کر اس میں اپنی رہائش کے لیے پکا قلعہ تعمیر کروایا جب کہ تقریباً نصف میل کے فاصلے پر چکنی مٹی سے کچا قلعہ تعمیر کرایا۔ یہ دونوں قلعے آج بھی حیدرآباد کی پہچان ہیں۔ وہ اپنا پایہ تخت خداّباد سے حیدرآباد لے آئے۔ ٹھٹھہ کے مقام پر انہوں نے شاہ بندر کی بندرگاہ بنوائی جو تجارتی سامان کی نقل و حمل کا بہترین ذریعہ بن گئی۔

میاں غلام شاہ کلہوڑو نے سندھ میں پہلی فلاحی مملکت کا تصور پیش کیا۔ ان کا ایک کارنامہ دریائے سندھ کا رخ موڑ کر سندھ کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا تھا۔ بے زمین کسانوں کو چھوٹے قطعہ اراضی مفت تقسیم کیے گئے تاکہ وہ کاشت کاری کرکے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال سکیں۔رعایا پر ان کی استطاعت کے مطابق محصولات عائد کیے جاتے تھے۔غلام شاہ کلہوڑو کو قلعے، مساجد اور بزرگوں کے مزارات کی تعمیر کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اپنے سابق دارالحکومت ،خداآباد میں ایک خوبصورت مسجد اوربلند وبالا مقام پر میاں یار محمد کا مزار تعمیر کروایاکے دور سندھ علم کی روشنی سے منور ہوا۔ ٹھٹھہ علم و فن کا گہوارہ تھا، صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی اور مخدوم محمد ھاشم ٹھٹھوی کا شمار اسی دور کے عالم و فضلا ء میں ہوتا ہے ۔

ان کی وفات حیدرآباد شہر میں فالج کے مرض کی وجہ سے ہوئی۔ ان کی تدفین حیدرآباد میں ہی کی گئی۔ اسینرل جیل حیدرآباد کے سامنے ان کا پرشکوہ مزار ہے جس کے بالمقابل کلہوڑا کالونی واقع ہے جس میں ان کے خاندان کے افراد آج بھی رہائش پذیر ہیں۔