ایک ماں ۔ ایک شہباز شریف

February 14, 2013

ابھی گزشتہ ہفتہ کی بات ہے کہ ہمارے ایک رپورٹر عثمان منظور نے مجھے بتایا کہ ایک خاتون اُس سے ملنے آئی اور خبر چھپوانے کے لیے ایک ہزار روپیہ کی بھی پیشکش کی۔ میں نے قدرے غصہ اور حیرانی کے ملے جلے انداز میں عثمان سے پوچھا کہ اُس نے خاتون کو اس حرکت پر کچھ نہیں کہا جس پر اُس نے بتایا کہ خاتون عمر رسیدہ تھیں، انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق ایسا عمل کیا۔ میں نے عثمان سے پوچھا کہ وہ خاتون کون سی خبر لگوانا چاہتی تھیں جس پر اُس نے بتایا کہ اُن کا کہنا یہ ہے کہ میں نے بیٹے کی شادی کروائی مگر شادی کے کچھ عرصہ کے بعد میرا بیٹا میرا نافرمان ہو گیا، مجھ سے بدتمیزی کرتا ہے، میری نہیں سنتا جبکہ اپنی بیوی اور سسر کے ہر کہے پر اندھا دھند چلتا ہے۔ عثمان سے ایک دکھی اور معصوم ماں نے درخواست کی کہ اُس کے بیٹے کے نافرمان ہونے کی خبر لگا دو، ہو سکتا ہے کہ صدرصاحب یہ خبر پڑھ کر اُس کا یہ مسئلہ حل کر دیں۔ عثمان نے خاتون سے کہا کہ ایسی خبر نہیں چھپ سکتی جس پر اُس سادہ لوح ماں نے اپنی جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکال کر عثمان کو دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اب تو خبر چھاپ دو۔ عثمان نے انتہائی احترام کے ساتھ بزرگ خاتون کو رخصت کیا جو دو تین دن بعد دوبارہ اُس کے پاس تشریف لائیں اور وہی کچھ کیا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ جب مجھے خاتون کے دوبارہ آنے کا پتا چلا تو میں نے عثمان سے درخواست کی کہ مہربانی کر کے اس ماں کی مدد کرو، چاہے اس کے لیے اُن کے بیٹے سے ہمیں ملنا پڑے۔نہ جانے ہم اس ماں کی مدد کر سکتے ہیں کہ نہیں اور نہ جانے وہ پھر ایک ہزار کا نوٹ تھامے دوبارہ ہمارے پاس اپنی ممتا کی آگ بجھانے کی امید لیے آتی بھی ہیں کہ نہیں مگر کتنے بدقسمت ہیں وہ بیٹے جو اپنی ماں کو کوئی خوشی دینے کی بجائے اس حد تک اذیت دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ماں کو ایک اخبار کے دفتر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر اپنے کالم میں کرنے کا مقصد اُن بیٹوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجوڑنا ہے جن کے غلط رویّے کی وجہ سے ہماری ماؤں کو اُس تضحیک اور دکھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا ان بزرگ خاتون کوتجربہ ہوا۔ میرے تو اپنے والدین (اللہ تعالیٰ اُن کو جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور اُن کے تمام گناہوں کو معا ف فرمائے ۔ آمین) اس دنیا سے رخصت ہو چکے اور یہ ہم تمام بہن بھائیوں پر اللہ کا کرم رہا کہ ہمارے والدین اپنی تمام اولاد سے زندگی میں خوش رہے اور بغیر کسی خفگی کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر میں جب بھی کسی ماں باپ کے ساتھ اُن کی اولاد کی بدسلوکی دیکھتا یا سنتا ہوں تویہ بات مجھے انتہائی دکھی کر دیتی ہے۔ والدین کی خدمت اولادکی آخرت میں بخشش کاذریعہ بن سکتی ہے جبکہ اپنے ماں باپ کو ستانے والے کے لیے تو جہنم کے علاوہ کوئی ٹھکانا نہیں ہو سکتا۔ والدین میں سے ماں کی تو حیثیت ہی مختلف ہے مگر نہ جانے ایسے کتنے بدقسمت ہیں جواپنے والدین کے ہوتے ہوئے ان کو اپنی بخشش کا ذریعہ بنانے کی بجائے اپنے لیے جہنم کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ ایک شہباز شریف: کچھ دن قبل چلتے چلتے کسی ٹی وی شو میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے راجہ ریاض کو کچھ ایساکہتے سنا کہ میاں نواز شریف تو اچھے آدمی ہیں اصل خرابی شہباز شریف میں ہے۔ میں راجہ صاحب سے متفق ہوں اور میری رائے میں توراجہ صاحب کو نعرہ بلند کرنا چاہیے کہ پاکستانی سیاست سے شہباز شریف کو باہر نکالو۔ یہ کیسا سیاست دان ہے جو نہ خود کھاتا ہے اور نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے۔ دیکھتے نہیں کہ وفاق اور دوسرے صوبوں میں سب کیسے بادشاہی کر رہے ہیں، عیاشیوں میں مصروف ہیں مگر نہ جانے شہباز شریف کو کیا مرض ہے کہ نہ خود آرام کرتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو آرام کرنے دیتا ہے۔ کرپشن کے الزامات تو سیاست دانوں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں مگر شہباز شریف پر نہ جانے کیا بھوت سوار ہے۔ یہ کیسی وزارت اعلیٰ ہے کہ بندہ دن رات لگا ہی رہے کبھی ڈینگی کے پیچھے تو کبھی سیلاب زدگان کے لیے۔ بھئی حکمران تو بادشاہی کرنے آتے ہیں۔ اور اب یہ جو لاہور میٹرو بس سروس شروع کی اس پر تو شہباز شریف کو عمر قید کی سزا ملنی چاہیے ۔ کمال ہے 30 ارب روپیہ خرچ کر دیا اور کسی ممبر پارلیمنٹ، کسی وزیر، کسی مشیر اور کسی سیاستدان کی جیب میں ایک دھیلا تک نہیں گیا۔ یہاں تو بڑے بڑے پروجیکٹ کمیشنز اور کرپشن کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں اور بلوچستان کی معطل حکومت کا تو کمال یہ تھا کہ بغیر پروجیکٹس کے ممبران اسمبلی کو کروڑوں دے دیے جاتے رہے۔ مگر شہباز شریف نے ممبران اسمبلی سے یہ بنیادی حق بھی چھین لیا۔ شہباز شریف کو اس لیے بھی فوری ہٹا دینا چاہیے کیوں کہ اُس نے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اپنے ہی داماد کو ہتھکڑیاں لگوا دیں اور تقریباً 56 لاکھ روپیے ٹیکس دیا۔ سیاستدان ٹیکس کہاں دیتے ہیں وہ تو عوام سے ٹیکس پر عیاشی کرتے ہیں۔ شہباز شریف اس لیے بھی سیاست کے قابل نہیں کہ ان کا دور حکمرانی میاں نواز شریف کے وزات اعلیٰ کے ادوار سے کرپشن اور گورننس کے لحاظ سے بہتر رہا۔مسلم لیگ ن میں بھی کوئی دوسرا شہباز شریف نہیں اس لیے بھی یہ بہتر ہو گا کہ میاں صاحب کسی قابل لیگی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیں تاکہ شہباز شریف کی قائم کردہ غلط روایات کو ختم کیا جاسکے۔ ذوالفقار کھوسہ کو ہی یہ عہدہ سونپ دیں وہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ حضرات کا خوب مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بلکہ حمزہ شہباز بھی شاید سیاستدانوں کو اُس طرح مایوس نہ کریں جس طرح اُن کے والد سے بہت سوں کو مایوسی ہے۔ بلکہ راجہ ریاض صاحب کو چاہیے کہ وہ شہباز شریف کو سمجھائیں ہو سکتا ہے وہ سمجھ ہی جائیں۔ اس بات کی امید اس لیے ہے کیوں کہ موقع ملنے کے باوجود شہباز شریف نے سسٹمز کی مضبوطی کے لیے کچھ نہیں کیا اور سارا کام اپنے سر لے لیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کل جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ نہیں ہوں گے تو میٹرو بس تو لاہور میں چلے گی مگر سسٹم میں ایسی کیا مضبوطی ہو گی کہ آئندہ کوئی وزیراعلیٰ صوبے کو اس انداز سے نہیں چلائے گا جس انداز میں دوسرے صوبوں کو آج چلایا جا رہا ہے۔ راجہ صاحب زیادہ پریشان نہ ہوں شہباز شریف نے افسر شاہی کو مستقل بنیادوں پر غیر سیاسی کرنے کے لیے بھی کوئی قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹیوں کو اتنا مضبوط کیا کہ وہ حکومت پر کڑی نظر رکھ سکیں۔ شہباز شریف کو آخر ہمیشہ کے لیے وزیر اعلیٰ تو نہیں رہنا۔ آج نہیں تو چلیں کل موجیں ہوں گی۔
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ