کراچی میں سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات

September 26, 2019

عارف رمضان جتوئی

کتوں کی بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک بچے کے پیچھے تین کتے پڑے ہوئے تھے۔ بھاگ کر بچے کو کتوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔ بچہ روتا ہوا گھر کی طرف بھاگ گیا۔ پتھر مارنے پر کتے بھی نو دو گیارہ ہوگئے۔ کراچی کے علاقے غریب آباد کی ایک انجان سڑک پر یہ واقعہ پیش آیا۔

رات کے وقت صدر کی معروف موٹرسائیکل کی مارکیٹ اکبر روڈ کے اطرف بھی کئی نسلوں کے کتے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اگرچے یہ شرافت کی انتہا گہرائیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں، تاہم کب یہ ا پنے پر اتر آئیں اس کا بات کچھ پتا نہیں ہوتا۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں کتے سرعام گھومتے پھرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

دو قومی بیانیے ہر محکمے میں سننے کو ملیں گے کہ ’’نوٹس لے لیا، اقدامات کررہے ہیں

سندھ کے شہر لاڑکانہ میں کتے کے کاٹنے سے وفات پانے والے بچے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ماں کی گود میں بچہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا ہے اور پھر بعد میں وہی دم توڑ دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی طرح کے تبصرے ہوئے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا کہ ’’لاڑکانہ میں کتے کے کاٹنے سے بچے کی ہلاکت کا واقعہ 20روز پرانا ہے اور والدین بچے کو وقت پر اسپتال نہیں لائے، جس سے بچے کو شدید انفیکشن ہوااور ایسے میں انجکشن نہیں دیا جاسکتا تھا‘‘۔ بچے کی موت ایک واقعہ ہے، جس پر روزانہ کی بنیاد پر سائیں سرکار کے مشیران وضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔ ایسے کئی واقعات روز پیش آتے ہیں، مگر اس کے باوجود کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔

وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے جمعہ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایس سرکاری اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین کی دستیابی سے متعلق واضح معلومات فراہم نہیں کرتے۔ ان کو اس بارے میں وارننگ جاری کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آوارہ کتوں سے متعلق مہم چلانا محکمہ صحت کا کام نہیں ہے۔ لوگ خود بھی احتیاط کریں۔ سیکرٹری صحت سندھ نے کہا کہ اینٹی ریبیز کے 55ہزار وائلز استعمال کیے جاچکے ہیں۔ کچھ اسپتالوں میں ویکسین نہیں ہوتی اس معاملے پر کام کررہے ہیں۔ این آئی ایچ سے بھی ڈھائی ہزار ویکسینز پہنچ جائیں گی۔

بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ ریبیز کیا ہے۔ کتے کے کاٹنے سے موت ریبیز کے وائرس کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔ ’’ریبیز‘‘ ایک مہلک بیماری ہے جو ریبیز سے متاثرہ جانور، جو زیادہ تر کتے ہوتے ہیں، کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتی ہے جسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے اور اگر اس انفیکشن کے اثرات پوری طرح نمایاں ہوجائیں تو یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے اور موت واقعے ہوجاتی ہے۔

متاثرہ فرد کو عموما 4 سے 5 انجکشن لگائے جاتے ہیں جس کا فیصلہ زخم کی نوعیت اور متاثرہ فرد کا وزن دیکھ کر کیا جاتا ہے۔اس کی علامات میں کاٹنے والی جگہ پر سنساہٹ ہوتی ہے اور بخار ہوجاتا ہے۔ پاگل پن،جنونیت اور ہوش کھو دینا جیسی کئی علامات نمایاں ہوتی ہیں۔

اب کتوں کے کاٹنے کے واقعات پر بات کریں تو کراچی میں بھی یہ واقعات کم نہیں ہیں۔ سندھ کے واقعے پر سندھ سرکار کا بیانیہ کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ ملکی سطح پر ہمارے دو قومی بیانیے ہر محکمے میں سننے کو ملیں گے کہ ’’نوٹس لے لیا، اقدامات کررہے ہیں‘‘۔ نہ کبھی نوٹس کے بعد کچھ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی اقدامات کے بعد کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔

سندھ میں بچے کے واقعے کے بعد کم از کم صوبائی حکومت کو ہوش آجانا چاہیے تھا ،مگر ایسا نہیں ہوا۔ نہ کتے ختم کرنے کی کوئی عملی مشق نظر آئی اور نہ ہی ویکسین کے حوالے سے کوئی اقدام کیا گیا۔ ممکن ہے اگلے کچھ روز میں کچھ ہوجائے، تاہم ہمیشہ مایوس کی جانے والی قوم کو کب اعتبار آتا ہے۔

کتے کاٹنے کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیا جائے اور کچھ میڈیا رپورٹس کو دیکھا جائے تو کراچی میں کتے کے کاٹنے کے روز 100کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں علاج کے یونٹ قائم ہیں، 24گھنٹے متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جاتی ہے اور بر وقت علاج نہ کیا جائے تومتاثرہ شخص ریبیز کا شکار ہوسکتا ہے۔

کتے کے کاٹنے کے واقعات کراچی کے تقریبا ہر علاقے سے رپورٹ ہورہے ہیں۔ اسی طرح سے سول اسپتال اور انڈس اسپتال میں بھی 49 افراد یومیہ لائے جاچکے ہیں۔اگست تک کے رواں برس سگ گزیدگی کے واقعات سے ہونے والی بیماری ریبیز سے 12 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔

یہ اموات ڈینگی یا دوسرے کسی وائرس سے ہونے والی اموات کے علاوہ ہیں۔ ان اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چھوٹی سی غفلت کا کراچی کے شہری کتنا بڑا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اگر یہ واقعات رونما ہورہے ہیں تو اس لحاظ سے ماہانہ جانے کتنے واقعات ہوتے ہوں گے۔ ان میں کئی ایسے واقعات بھی شامل ہیں جو رپورٹ تک نہیں ہوتے۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ ماہ میں جاری ہوئے۔ اس کے باوجود حکومت سندھ کو کوئی فکر نہیں۔

کراچی کے باسی کبھی کچرے پر روتے ہیں تو کبھی ابلتے گٹروں پر ایسے میں کتے کے کاٹنے اور ڈینگی کے وائرس سے مرنے والوں کے اہل خانہ کی فریاد کو کون سنے گا۔

کرنے کے کاموں میں سب سے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ آوارہ کتوں کی آوارگی کا نوٹس لیتے ہوئے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ان کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو انسداد ریبیز ویکسین کی کمی کو کسی بھی طرح سے پورا کیاجانا چاہیے۔

جب اعداد و شمار بتائے جاچکے ہیں تو پھر یہ روایتی سستی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انسداد ریبیز ویکسین کی کمی کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف جناح اور سول اسپتال میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود ہوتی ہے اس کے علاوہ کسی سرکاری اسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں ہے۔

چند نجی اسپتال بھی سگ گزیدگی کی ویکسین فراہم کرتے ہیں، تاہم نجی اسپتالوں میں ویکسین اور ابتدائی ٹریٹمنٹ کی قیمت ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے۔

سگ گزیدگی کے علاج کے لیے ویکسین بھارت سے درآمد کی جاتی ہے، جس نے اس کی فروخت روک دی ہے۔ بھارتی ویکسین پرآنے والا خرچ صرف ایک ہزار روپے، جبکہ یورپ سے منگوائی جانے والی ڈوز 70 ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ پاکستان بڑی حد تک بھارت سے خریدی گئی ویکسین پر انحصار کرتا ہے لہٰذا سرکاری اسپتالوں میں ذخیرہ کردہ ویکسین جلد ختم ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بھارت میں سگ گزیدگی کے علاج کی ویکسین کی پیداوار اس کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لیے خود بھی ناکافی ہے۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے تو پھر مستقبل میں ممکنہ طور پر یہ ویکسین ملنا ناممکن ہوجائے گی۔

کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیے؟

ماہرین نے ایسی صورتحال پیش آنے کی صورت میں فوری طور پر بچاؤ کی چند مفید تجاویز دی ہیں۔ کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے، اس لئے کتے کے کاٹنے کے بعد اینٹی ریبیز ویکسین (اے آر وی) لگانا ضروری ہوتا ہے۔ ریبیز نامی وائرس پاگل کتے میں موجود ہوتا ہے۔

پہلی فرصت میں قریبی سرکاری اسپتال پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام ترخامیوں کے باوجود سرکاری اسپتالوں کا عملہ نجی اسپتالوں کے عملے سے زیادہ ایسی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں روزانہ ایسے لاتعداد کیسز لائے جاتے ہیں۔

اسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے 10-15 منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیں لیکن پٹی مت باندھیں، اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے افراد جنہیں کتا کاٹ لے انہیں چاہیے کہ وہ ٹوٹکے نہ استعمال کریں، زخم پر نمک اور لال مرچ چھڑک کر دھاگے باندھنے سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔

ایسی صورتحال میں خاطر خواہ تسلی رکھیں کیونکہ اب 14 ٹیکے لگوانے کا دور گزر گیا بلکہ اب جدید علاج کے تحت ایک ماہ میں 5 ٹیکوں کا کورس کروایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پالتو کتوں کی ویکسینیشن بھی ریبیز کے وائرس سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتی ہے۔