سوچنے کیلئے سفر بھی اک شرط ہے

September 29, 2019

ٹوکیو میں صرف دو دن کا پڑائو تھا، اردو زبان کا محاورہ اونٹ کے منہ میں زیرہ، سو کچھ ایسا ہی حال اپنا تھا۔ 12گھنٹے کی پرواز کے بعد صبح کے وقت ایئر پورٹ سے شہر کیلئے ٹیکسی لینے کا سوچا۔ ٹوکیو میں زبان اب بھی مسئلہ ہے، ایئر پورٹ پر اپنی بھاشا بولنا اور جواب میں جاپانی سننا بہت ہی اچھا لگا، دو منٹ کی گپ شپ کے بعد آخرکار انگریزی بولنے والا تیسرا بندہ نازل ہو گیا، میں نے اپنے ہوٹل کا بتایا اور ٹیکسی سروس کا پوچھا وہ جھکا اور پھر بولا: نو، نو۔ گو آن ٹرین، اٹ از گُڈ اینڈ چیپ۔ مجھے سمجھ آ گئی اور اسٹیشن کا راستہ لیا۔

تقریباً آدھ گھنٹے کے سفر کے بعد شہر کی بلند عمارتیں نظر آنے لگیں اور ہمارا اسٹیشن بھی آ گیا۔ باہر آئے، پھر ہوٹل کی تلاش، قریب ہی ایک پولیس چوکی نظر آئی، ایک کمرہ صاف ستھرا، دو پولیس والے عام سی وردی میں بیٹھے تھے، میں نے ہیلو کہا تو جواب آیا ’’سایوں نارا او‘‘ میں بولا: اسپیک انگلش؟ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مجھے دیکھا پھر اشاروں کے ساتھ دور ایک بلند عمارت کی طرف اشارہ کرکے بتانے لگے۔ اشارہ تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر زبان بزبانِ جاپانی، پلے پڑ نہیں رہی تھی، پھر وہ جھکا اور واپس دفتر چلا گیا۔ میں نے اس کے اشارے کی سمت چلنا شروع ہو گیا۔ آگے ایک عورت نظر آئی، پوچھا: یو اسپیک انگلش؟ وہ رک گئی اور مسکرائی، یس یس، واٹ آئی کین ڈو فار یو؟ میں مسکرایا اور ہوٹل کا پتا اس کے سامنے کر دیا۔ وہ ٹیلی فون سے کھیلنے لگی، ایک منٹ بعد اس کو فرصت ملی اور بولی۔ اٹ از ویری نیر، اس نے اشارہ کیا، میں اس کے ساتھ چلنے لگا، اس نے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو۔ میں نے بتایا تو خوشی سے بولی میں بھی کچھ عرصہ پہلے وہاں تھی، ہم دونوں ایک دفعہ پھر اسی پولیس چوکی کےسامنے کھڑے تھے۔

میں حیران تھا، وہ اندر گئی اور ان دونوں پولیس والوں کے ساتھ باہر آ گئی اور بولی: آپ پہلے یہاں آ چکے ہیں، آپ کا ہوٹل تو بالکل سامنے ہے، سڑک کے پار۔ میںان تینوں کے سامنے جھکا، ایک بار نہیں تین بار اور سڑک پار کرنے کیلئے قریبی لاسٹ کی طرف چلنے لگا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی، شانتی دیوی کی کال تھی۔ اصل میں یہ سفر کی میزبان شانتی دیوی ہی تھی جو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ کیلئے کام کرتی ہے، اس کا قیام بھی اسی ہوٹل میں تھا۔ میں نے جلدی سے پوچھا کدھر ہو؟ بولی تمہاری فلائٹ کیا لیٹ ہے؟ میں نے کہا، نہیں میں ذرا لیٹ ہو گیا ہوں۔

ہوٹل کی لابی میں شانتی دیوی مل گئی، اس کے ساتھ ہمارے مقامی میزبان تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ پہلا سیشن دوپہر تین بجے ہے۔ اس سے پہلے ایک جگہ کھانے کے لئے بھی جانا ہوگا۔کھانے کے لئے ذرا دور جانا ہے، سو کچھ دیر بعد ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔

کھانے کی میز پر ہم نو لوگ تھے اور کھانا ہر قسم کا تھا، شانتی نے تعارف کروانا شروع کیا دو خواتین ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی سے تھیں، ایک صاحب بھارت کے صوبے بہار سے تھے، ایک صاحب امریکی تھے اور کسی این جی او کے تحقیقی رکن تھے، ایک نوجوان برطانیہ سے تھا اور ایک محترمہ سنگاپور کی تھیں۔ ایک اور خاتون سائوتھ افریقہ سے تھیں۔ میں نے بھارتی سے نام پوچھا اس نے مشکل سا نام بتایا، پوچھا آپ کے وزیراعظم آج کل امریکہ میں بڑا شور شرابا کر رہے ہیں، ان کی جمہوریت کیسی جا رہی ہے، اس نے مجھ سے پوچھا کہ پاک بھارت سیاست میں دلچسپی ہے؟ میں نے کہا ہاں ہے، اس لئے کہ سیاست ہمارے ہاں اب ایک کاروبار ہے۔ وہ زور سے ہنسا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ہمارے ہاں سیاست کے اصول انگریز کی دین ہیں اور سیاست نے ہمارے ہاں کی معیشت اور معاشرت کو بہت خراب کر دیا ہے۔ ہمارے ساتھی ہماری گفتگو کو سن کر حیران تھے کہ کھانا شروع ہو گیا اور سب مصروف ہو گئے۔ کھانے کے ساتھ گپ شپ بھی چلتی رہی۔ شانتی پوچھنے لگی تمہارا کھلاڑی وزیراعظم یو این او میں خوب بولا ہے کیا پاک و ہند میں جنگ سے ڈر لگتا ہے کہ اس جنگ میں کسی کی چونچ اور کسی کی دم ہی نہ گم ہو جائے۔ ہماری میزبان خاتون نے پوچھا: کیا یہ جنگ ایٹمی ہو سکتی ہے؟ میں خاموش رہا۔ برطانوی نوجوان بولا:مشکل ہے۔ جنگ روایتی ہو سکتی ہے، امریکہ اس معاملے میں کیا کردار ادا کرتا ہے، وہ دیکھنا ہے۔ ٹرمپ ایک خودسر امریکی ہے، وہ چین سے خوفزدہ ہے اور بھارت کو استعمال کر رہا ہے۔ بھارتی سیاستدان جمہوریت کے معانی بدل رہے ہیں، مودی کو اپنے ملک میں بہت مشکلات کا سامنا ہے اور بھارت واپسی پر اس کو اندازہ ہوگا کہ کشمیر میں لگی آگ کتنی خطرناک ہے۔ میں نے کہا دنیا بھر میں جمہوریت کا نظریہ بدل چکا ہے اور جدید ذرائع ابلاغ نے عوام کی حیثیت کمزور کر دی ہے، اس لئے جمہوریت قابل اعتبار نہیں۔ شانتی نے سب کی طرف دیکھا اور بولی تو پھر کونسا نظام دنیا میں امن کے لئے ضروری ہے؟ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے پھر شانتی دیوی خود ہی بولی، کوئی ایسا نظام جو دولت کی تقسیم کو آسان بنائے، اجارہ داری ختم کرے اور قانون کا اصول آسان اور قانون سب کی مدد کے لئے ہو! میں نے پوچھ ہی لیا سب کی مدد سے کیا مراد؟ وہ مسکرائی اور بولی سب کو ایک دوسرے کی مشکلات کا اندازہ ہو تو سب کی مدد ایک دوسرے کی مدد ہوتی ہے۔ جمہوریت ایک نظریہ تھا اور ہے بھی مگر جمہوریت نے انسانیت کو اقلیت میں بدل دیا ہے اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ جمہوریت عوام سے انتقام لے رہی ہے۔ مجھے شہید محترمہ ی جماعت کا نعرہ مستانہ یاد آیا کہ جمہویرت بہترین انتقام ہے، آج ہر جگہ جمہوریت عوام کو بے بس اور بے توقیر کر رہی ہے، ابھی ہمیں ایک اور جگہ جانا تھا، سب لوگ کھڑے ہوگئے اور میں سوچ رہا تھا دنیا میں فاصلے سمٹ گئے ہیں اور سوچ اور فکر کے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ سفر کی داستان ابھی جاری ہے۔