خارجی امور سے نکلتی داخلی استحکام کی راہیں

October 01, 2019

پاکستانی قوم اور ریاست ہر دو کے لئے یہ امر اطمینان بخش اور باعث حوصلہ ہے جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کی بدترین اقتصادی حالت اور سیاسی عدم استحکام میں تسلسل کے باوجود، اس کڑے وقت میں بھی ہماری مجموعی حیثیت و کیفیت فقط زندگی کی رمق ہونے سے بہت آگے ہے۔ کوئی بارہ سال سے ہم اپنے وجود و بقاء کے چیلنج میں مبتلا ہیں، جس میں ہم بار بار سخت گیر ثابت ہو رہے ہیں۔ شدید بحرانی کیفیت میں بھی توانا امیدوں اور بہتری کا یقین، اب یقین محکم بنا ہوا ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ ففتھ جنریشن وار کا جو بھی ماڈل بنا اور بن رہا ہے، ہوس گیر اور متعصب سیاسی (اور مذہبی بھی) طاقتوں کی جانب سے اس کا پہلا اور بڑا ہدف پاکستان کو بنایا گیا، باقی متاثرہ مسلم ممالک جیسے عراق، شام، یمن، فلسطین و کشمیر، میانمار پر تو کھلم کھلا اسلحے اور یکطرفہ ہلاکت خیز جنگیں اور خانہ جنگی مسلط کی گئی۔ ہم وہ ملک ہیں جو 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا نان نیٹو لیکن فرنٹ لائن پارٹنر بن کر بھی، میدان جنگ (افغانستان) کے بعد سب سے متاثرہ ملک بنے۔ سوات اور وزیرستان کے الائو ہی ہماری داخلی سلامتی کے چیلنج نہ بنے، جس طرح نیم مقبوضہ افغانستان کو ہمارے ملک بھر میں طویل اور مسلسل دہشت گردی کا بیس کیمپ بنایا گیا، ہم جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ توازن کی پروا کئے بغیر بھرپور تجارت کرتے رہے اور بھارت کے ساتھ تو کشمیر کے بڑے اور بنیادی تنازعے کے باوجود ہم نے اپنے دفاع کو یقینی بنانے اور بھارت کو عملاً اس کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ ’’حالات کی بہتری کے لئے ہر دم آمادگی‘‘ کے بلند درجے کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر کی ہفتوں میں ہوتی آزادی کے عمل کو روک کر سلامتی کونسل کی سیز فائر کی پہلی ہی اپیل پر رک گئے اور نئے قائم ہوئے عالمی ادارے کے احترام کی اذیت ناک سزا سات عشرے سے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے کشمیری اور پاکستان بھگت رہے ہیں۔ نہرو، لیاقت معاہدہ، نہری پانی کا معاہدہ، رن آف کچھ انٹرنیشنل ٹربیونل کی ثالثی کی قبولیت، معاہدہ تاشقند، سمجھوتہ ایکسپریس اور ہمارے کتنے ہی چھوٹے بڑے پیس افینس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے داخلی سیاسی بحران میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا مجرمانہ کردار ادا کیا، وہ واضح طور پر جنوبی ایشیا میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ کا ذمہ دار بنا۔ جب پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے، اسلامی جمہوریہ کی اس صلاحیت کا اسے یقین ہو گیا تو پاکستان کی سرحد کے ساتھ باڑ لگا لی حالانکہ طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہی تھا۔ کارگل جنگ اگرچہ پاکستان میں بھی متنازع ہے، بہرحال یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اقدامات کے ساتھ ساتھ جاری نفسیاتی جنگ کی انتہا کا نتیجہ تھا کہ بھارت کا مسئلہ کشمیر حل کرنے میں رویہ اس کی بددیانتی اور قبضہ گیری کے عناصر سے مغلوب رہا۔

اس پس منظر کے ساتھ 9/11نے پاکستان کو جتنے بڑے چیلنج سے دوچار کیا اور جس طرح جہاد افغانستان (دسمبر 1979تا 1990) کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلم ممالک سے اپنی آمرانہ حکومتوں کے باغی یا جہادی جذبے سے سرشار مغرب کے تسلیم شدہ مجاہدین کا مستقل قیام پاکستان میں ٹھہرا، اس میں پاکستان ہمیشہ کے لئے افغانستان کے ساتھ ایسا جڑا کہ اسے اب ختم کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک بڑی حد تک تو یہ، باوجود اس کے کہ کابل میں حکومتیں پاکستان دوست نہ تھیں، پرامن طور پر افغانستان سے گہری وابستگی کا حامل رہا۔ کتنا عجب ہےکہ امریکہ اور یورپی یونین اور ان کے ہر حال میں حلیفوں کی Cold Intellectual Calculationsکے برعکس پاکستان، سوویت یونین کی حتمی شکست و ریخت کے بعد اپنی اس سیاسی، جغرافیائی حیثیت (Geo-Political Status)سے محروم نہیں ہو گیا جو سوویت یونین کے دنیا بھر سے رابطوں میں حائل بڑی رکاوٹ کے حوالے سے تھا جس کے فائدے کی انتہا افغانستان پر سوویت جارحیت اور اس کی 9سالہ عسکری موجودگی سے ہوئی۔ 9/11سے پہلے اور بعد بھی پاکستان ہی افغانستان کے حوالے سے اہم ترین ملک رہا جبکہ نوآزاد لینڈ لاکڈ سنٹرل ایشین ریاستوں کے نئے حوالے سے بہت اہمیت اختیار کر گیا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ پاکستان کی حیثیت اہمیت کو علانیہ کئی بار تسلیم کر چکا۔ آج پاکستان، عمران جیسی قیادت کے برسر اقتدار آنے کے بعد خطے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے طور پر بھی خبروں و تجزیوں کا موضوع بن رہا ہے۔

بھارت میں مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے بھارت کی بدلتی حیثیت اب بالکل تبدیل ہو گئی ہے کہ اب یہ سیکولر رہا نہ اپنی اقدار اور تشخص کے حوالے سے جمہوری۔ بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس صورتحال سے سخت فکرمند ہے۔ وہ دنیا کے رجحانات کو جانتا ہے کہ بھارت کے بنیاد پرستانہ رنگ ہی نہیں، اس کے جبر سے مودی حکومت نے جو اقدامات آغاز میں ہی کر دیئے ہیں، اس میں بھارت اب شائننگ ہو ہی نہیں سکتا، نہ اس بڑی مارکیٹ میں مغربی ذہن کا کوئی سرمایہ کار، بھاری سرمایہ کاری کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ بھارتی یونین ہل کر رہ گئی ہے اور اقتصادیات روبہ زوال ہونے کے عندیے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور جو کچھ مودی نے کشمیر کے ساتھ کر دیا اور جیسا ظلم و جبر ان پر مسلط کر دیا گیا ہے، اور جس طرح پاکستان جیسا سخت گیر اور طاقتور (باوجود اقتصادی بحران کے) ہمسایہ اس کے ساتھ ہے، اس میں بھارت کی اقتصادیات کی بربادی کا تمام تر سامان مودی نے خود ہی پیدا کر دیا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی بڑی جزوی خوبیوں اور کامیابیوں کے گورننس کی جو پتلی حالت ہے، اس میں تو پاکستان کو سنبھالے رکھنے اور اقتصادی بحران دور کرنے اور سیاسی داخلی استحکام کی راہیں، ہمارے خارجی امور سے جڑتی معلوم دیتی ہیں، لیکن یہ اپنی جگہ ایک بڑی اور گرینڈ گیم ہے، جس پر ’’آئین نو‘‘ میں اظہار رائے و تجاویز کا سلسلہ جاری رہے گا۔