دنیا بدلنے کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے

October 02, 2019

کتیلینا اسکوبار

دنیا کی تاریخ بدلنے اور غربت کے بادل کا خاتمہ کرنے کے لیے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی قدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ان کو بدلنے کے لیے دنیا میں متعدد خواتین اور بچے اس ضمن میں مختلف طر یقو ں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔خواتین اور بچوں نے کام کرکے نہ صرف خود کے حالات تبدیل کیے بلکہ اپنے ملک کے حالات کو بھی بہتر کرکے پوری دنیا میں اپنا روشن کیا ۔جن میں سےچند کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے ۔

خواہشات اور حسرتوں سے دنیا تعمیر نہیں ہوتی

45 سالہ ’’کتیلینا اسکوبار‘‘ (Catalina Escobar) نے کولمبیا کے مرکزی شہر، کارٹاجینا (Cartagena) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذاتی کاروبارکا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کام یاب کاروباری خاتون کی حیثیت سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ کاروبار کے ساتھ اپنے شہر کے مرکزی اسپتال میں بہ طور نرس رضاکارانہ کام کرتی تھی لیکن اچانک ایک دن سب کچھ بدل گیا۔

کتیلینا اسکوبار

کتیلینا نے اپنے کاروبار ختم کر دیئے اور اپنی زندگی غریب مائوں اور نومولود بچوں کے لئے وقف کر دی، جب کاروباری حلقوں میں ان کی بہت اچھی ساکھ تھی۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ ’’کتیلینا‘‘ نے اپنی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اس بارے میں ’’کتیلینا‘‘ نے سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ بات ہے 2000ء کی، جب میری زندگی نے ایک مختلف موڑ لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ سن 2000ء کے میں سیاہ فارم افراد کی جھونپڑ پٹی کے ایک جھونپڑ میں 16 دن کا نومولود میرے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔

بچے کی موت پر ماں زار زار روتے ہوئے کہہ رہی تھی میں اپنے بچے کے لئے دوا نہ خرید سکی۔ 30 ڈالر کی دوا کے لئے دروازے کھٹکٹاتی رہی لیکن کسی کے پاس اتنی رقم نہ تھی، وہ سب بھی میرے جیسے فاقہ زدہ تھے۔ اس لمحے میرے کانوں میں ’’30 ڈالر‘‘ کی آواز کسی بم سے کم نہ تھی۔ سوچ رہی تھی، کاش یہ بے بس عورت مجھ سے بھی اپنی مجبوری بیان کر دیتی۔ بچے کی آخری رسومات کے بعد میں گھر آ گئی لیکن وہ رات بہت بے چین گزری۔ رات کا ہر گزرتا پل میرا سکون ختم کررہا تھا۔

صبح ہونے تک میری زندگی میں انقلاب آگیا۔ میں نے اپنا پھیلتا کاروبار مکمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی تمام دفتری چیزیں فروخت کرکے غریب مائوں اور نومولود بچوں کے لئے ادویات اور طبی آلات خرید کر سن 2001ء میں ایک جدید اسپتال قائم کیا، جو اپنے مرحوم بیٹے کے نام سے قائم فائونڈیشن کے زیر اہتمام کیا۔ اسپتال ہی میں ڈے کیئر سینٹر بھی بنایا۔

اسپتال میں غریب بچوں کے مفت علاج کے ساتھ مائوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر، تولیدی صحت سے آگاہی اور روزگار فراہم کئے۔ 2011 ء میں فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایک میڈیکل کمپلکس اور چائلڈ ڈیولپمنٹ سینٹر تعمیر کیا، جہاں سالانہ تقریباً 28 ہزار غریب مریضوں کا علاج کیا جاتا اور مائوں کو تولیدی صحت کے حوالے سےمشورے دیئے جاتے ہیں۔

’’کتیلینا‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ سب کر کے مجھے سکون ملتا ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد کی دنیا ہی نہیں بدلی بلکہ دیگر خواتین کو بھی ایسے کام کرنے کی طرف مائل کیا ہے، جس سے دوسروں کا بھلا ہو، انہیں جینے کا حوصلہ ملے۔ میں سمجھتی ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی مائوں سے بہتر کوئی نہیں لاسکتا۔

غریب لوگوں کوزندگی گزارنے کے باعزت طریقے بتائے اور ان کی مثبت سوچ کو پروان چڑھا کر ہم بچوں کو معاشرے کا بہترین شہری بنا سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں جہاں غریب ہے، وہاں کی مائوں کو سمجھانا، ہنرمند بنانا ضروری ہے۔ ’’کتیلینا‘‘ کہتی ہیں، آج میرے علاقے ہی نہیں میرے شہر کی کوئی غریب عورت کے نہ بچے بھوکے ہوتے ہیں اور نہ وہ خود۔ وہ ہنرمند بھی ہے اور بچوں کو تعلیم سے بہرہ مند بھی کر رہی ہے۔

اپنی پلیٹ میں بچا کھانا ضائع نہ کرو

امریکا میں مقیم ’’وائلن مہالنگم‘‘ خوش حال خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے ارد گرد جتنے امیر کبیر لوگ رہتے تھے، غریب کیا ہوتی ہے؟ اس کا علم اسے نہیں تھا۔ وہ آٹھ برس کا تھا، جب اپنے گھروالوں کے ساتھ بھارت گیا، وہاں اس نے غربت کی ایسی ایسی جیتی جاگتی کہانیاں دیکھیں کہ اس کی آنکھیں جھپکنا بھول گئیں۔

دماغ سن ہوگیا۔ جب اسے پتا چلا کہ لوگ اپنے بچوں کے لئے روٹی کا انتظام کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں تو اسے اپنی ماں کی باتیں یاد گئیں، جو کھانے کی میز پر اکثر سننے کو ملتی تھیں۔ ماں اس کی پلیٹ میں بچا کھانا دیکھ کر کہتی، تم اپنی خوراک ضائع مت کرو، جو کچھ تم ضائع کر رہے ہو، بعض اوقات یہ ایک خاندان کو پورے ہفتہ نصیب نہیں ہوتا۔

وہ ماں کی باتیں سن کر ٹال دیتا لیکن بھارت میں اپنے غریب رشتے داروں اور فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ماں باپ کے ساتھ کام کرتا دیکھ کر اس کی دنیا ہی بدل گئی اور پھر واپس امریکا آ کر اس نے اپنے ارد گرد کی دنیا بدل دی۔

سی این ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا، بھارت میں ایک تیرہ سالہ بچی ایک گھر میں دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ جب وہ انہیں نہلاتی، کپڑے پہناتی، انہیں کھانا کھلاتی تو میں سوچتا یہ تو خود بچی ہے، اسے تو خود توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک دن اس بچی سے جس کا نام ’’ہوماتی‘‘ تھا، پوچھا، بچوں کی دیکھ بھال کا معاوضہ کیا ملتا ہے تو اس نے کہا، بارہ سو ماہانہ۔ وہ جس گھرانے میں کام کررہی تھی ان کے ایک وقت کے کھانے کا خرچ بھی اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگا۔

میں نے یہ بھی سوچا کہ میں خود اس سے بھی زیادہ رقم کے ماہانہ فلموں کے ٹکٹ خریدتا ہوں۔ مجھے زندگی کی ہر نعمت میسر ہے۔ تعلیم، صحت، کھانا وغیرہ سب کچھ۔ اس بچی نے تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ اسے غربت سے نجات کی کوئی امید بھی نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب تھا کہ اسے بہتر مستقبل کی بھی کوئی امید نہیں تھی۔

لیکن اب میں نے ایسے بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے اور انہیں ہنرمند بنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ میں ہر سال چھٹیوں میں اپنے رشتے داروں سے ملنے بھارت جاتا ہوں، جہاں غریب بچوں کو کبھی فٹ پاتھ پر، کبھی جھونپڑیوں میں پڑھاتا ہوں، ساتھ انہیں ایسے ہنر سکھاتا ہوں جن سے وہ دو پیسے کما سکیں۔ مجھے امید ہے کہ جلد ان کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے۔ میں ہر بچے سے کہتا ہوں کہ کھانا پلیٹ میں اتنا ہی نکالو جتنا کھا سکو لیکن ضائع نہ کرو۔

دو لقمے روٹی کو ترستی چین کی ’’ژیانگ چن‘‘ آج دنیا کی دو مشہور پیپرمل کی مالک ہیں

زندگی مختصر ہوتی ہے، مگر اس کی کہانیاں بہت طویل ہوا کرتی ہیں، ایک ایسی ہی کہانی چین کے صوبہ ہیلون چیانگ کے ایک غریب گھرانے کی ہے،جہاں ایک بچی ژیانگ چن نے جنم لیا۔ کل کی یہ غریب بچی آج کی معروف بزنس ویمن ہے۔ مشہور کمپنی ’’نائن ڈریگز ‘‘ اور امریکا چونگ نام‘‘ (اے سی این) کی مالک ژ یانگ چن ہیں۔

دو بوند دودھ اور دو لقمے روٹی کو ترستی ژیانگ نے ایسا کیا کیا کہ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ’ایک ا یسی سوسائٹی میں جہاں لوگ حکومتی اہل کاروں اور کاروباری رہنمائوں سے تعلقات پوشیدہ رکھتے ہیں۔ژیانگ چن نےدولت اکٹھی کرنے میں کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا ، اب ان کی خواہش ہے کہ وہ ردی کاغذ کی صنعت میں لیڈر کا کردار ادا کریں۔

اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائیں گی ۔وہ ایک بہترین سیلز ویمن اور ایک تیز طرار ڈیل کرنے والی خاتون ہیں۔ دو بچوں کی ماں ہیں لیکن گھریلو اور کاروباری زندگی میں توازن کی قائل ہیں،یہی ایک بزنس کرنے والی خاتون کی کامیابی کی کلید ہے۔ ‘‘

ژیانگ چن بہت مشکل حالات میں سنبھل سنبھل کر چلیں، گھریلو اور معاشی مسائل نے بار بار تعلیمی سلسلہ توڑنے پر مجبور کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے سے چھوٹے سات بہن بھائیوں کو پالا۔ آٹھویں بچے کی پیدائش پر ماں کاانتقال ہو گیا۔ اس وقت ژیانگ کے والد چیانگ ژین فوج میں لیفٹنٹ تھے لیکن ان کی تنخواہ اتنی کم تھی کہ گھر میں کبھی کبھی کھانے کو بھی نہ ہوتا تھا،بہرحال ماں کے انتقال کے بعد ژیانگ کو اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔

بہن بھائیوںں کی دیکھ بھال، گھریلو امور اور باپ کی غیر موجودگی میں بیرون خانہ ذمے داریاں ژیانگ کے کاندھوں پر آن پڑیں۔ چند سال بعد مالی حالات بہتر ہوئے،حالات میں ٹھہرائو آیا توباپ کےکہنے پر ژیانگ نے اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ شرو ع کر دیا۔

زندگی کے اٹھارویں سال میںقدم رکھا تو ایک کمپنی میں بطور اکائونٹینٹ ملازمت شروع کی،لیکن مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنی تنخواہ سے بچت کرنی شروع کر دی۔ 80کی دہائی میں چین میں معاشی اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ تو ژیانگ جنوبی ساحل شہر شیزہین چلی گئی، جہاں ایک بزنس مین کے ساتھ تجربے کے طور پر کا غذ کا کاروبار کیا۔

دریں اثناء میں ژیانگ نے ردی کاغذ کا ضیاع دیکھا۔ تو اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ کاغذ ساز چینی فیکٹریوں کو ردی کا غذ فروخت کیا جائے۔ اس آئیڈیے کو تقویت ان کے یہی خواہوں سے ملی، جنہوں نے ژیانگ سے کہا کہ ،ردی کاغذ ایک جنگل کی طرح ہوتا ہے جو نسل در نسل اپنےآپ کو ری سائیکل کرتا رہتا ہے۔

اس وقت ژیانگ صرف 25برس کی تھیں۔ جب تیس ہزار مالیت کا ردی کاغذ ہانگ کانگ سے خرید کر چینی فیکٹریوں کو بھیجا جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پہلی کامیابی نے ژیانگ کے لئے آگے بڑھنے کمے کاروباری راستےکھول دیئے۔ ژیانگ کا دورہ کر کے کاغذی صورتحال کا جائزہ لیا۔

بالآخر امریکا سے ردی کاغذ منگوانے کا فیصلہ کیا اور جلد ہی وہ (لاس اینجلس امریکا) چلی گئیں۔ یہ 1990ءکی بات ہے، جب ژیانگ نے امریکا سے کاغذ خرید کر چین بھیجنا شروع کر دیا۔ ایک سال بعد ژیانگ کی ملاقات ایک نوجوان ڈینٹسٹ سے ہوئی،چند ماہ بعد اس سے شادی کر لی اور ژیانگ کو گرین کارڈ بھی مل گیا۔

جب کام میں اضافہ ہوا تو اس نے اپنے شوہر سے کہا، میرے ساتھ ردی کاغذ کے کاروبار میں شریک ہو جائیں اور پھر ایسا ہی ہوا، بعد ازاں ژیانگ نے امریکا میں ’’امریکا چونام (اے سی این) کے نام سے کمپنی قائم کی اور مختلف اسکریپ کی کمپنیوں سے ردی کاغذ خرید کر بحری جہازوں کے ذریعے چین بھیجنا شروع کردیا۔ اے سی این نے خوب کاروبار کیا۔1995ءمیں ژیانگ نے چین جا کر ’’ نائن ڈریگز‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کی۔ ردی کاغذ کی ری سائیکلنگ کرنے والی یہ کمپنی ردی کاغذ درآمد کرتی، اسے کارڈ بورڈ میں تبدیل کرتی ،پھر اس کارڈ بورڈ سےڈبے بنائے جاتے، جن میںچینی مال بیرون ملک بھیجا جاتا۔

1995ء کے اواخر میں قائم ہونے والی ’’نائن ڈریگز‘‘ کاآج ایشیا میں پہلے، جبکہ دنیا کی دوسری بڑی مشہور پیکیجنگ پیپر مل میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ ژیانگ امریکاسے ردی کاغذ خریدکر چین لاتی ہیں۔ یہاں اس کاغذ کے ڈبے بنائے جاتے ہیں۔

پھر ان ہی ڈبوں میں چینی سامان کو دیگر ممالک کے علاوہ امریکا بھی بھیجا جاتا ہے،یوں ردی واپس ایک نئی صورت میں امریکا پہنچ جاتی ہے۔’’نائن ڈریگز‘‘ میں گیارہ کاغذ ری سائیکل کرنے والی مشینیں 5300، ملازمین ہیں اور سالانہ تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمدن ہے، جو دنیا کی تیز رفتار ترقی کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہو چکی ہے۔