یا اللّٰہ خیر

October 04, 2019

پرویز رشید سے ملاقات ہوئی۔ کافی دیر علمی گفتگو جاری رہی۔ ایسا لگا جیسے دماغ کی ٹرین میں مسافر جاگ اٹھے ہیں۔

کھڑکیوں کے ساتھ چلتے ہوئے منظر رک گئے ہیں۔ گمشدہ تہذیبوں میں سفر کرنے والی کار مستقبل میں پہنچ چکی ہے۔ نیا پاکستان دنیا سے ہمکلام ہے۔ انتہائی خوبصورت زندگی کا منظر آنکھوں کے سامنے ہے مگر درمیان میں معیشت کی آگ کا دریا حائل ہے۔

یہ آگ صرف ڈالروں کی بارش بجھا سکتی ہے۔ ابھی تک ریت پر مچھلیاں سن باتھ لے رہی ہیں۔ ایک ایک کیکر کے درخت سے سوسو کچھوے لٹک رہے ہیں۔ صدیوں کے پیٹ سے ٹائی ٹینک نکل کر موٹیل کا روپ دھار چکا ہے۔ اژدھوں کا رقص جاری ہے۔

وہ سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بھیڑیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ روباہیں انسانی گوشت سرو کر رہی ہیں۔ بار روم میں اونٹ اونگھ رہے ہیں۔ جم میں غزال اپنی ٹانگوں کے مسل مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔

ہیر ڈریسر بلیاں کتوں کے بال کاٹ رہی ہیں۔ بیڈ روموں سے ہاتھیوں کے خراٹے سنائی دے رہے ہیں البتہ شیر کی کچھار کے آگے لوہے کی سلاخیں لگا دی گئی ہیں۔وہ زنداں میں کھڑکی کھلی ہے۔ تازہ ہوا کے جھونکے چہروں سے ٹکرائے ہیں۔ خوشبو بھری ہوا سے دل معطر ہو چکا ہے۔

پون صدی کے حبس زدہ مقفل تہہ خانے میں پھول ہی پھول کھل اٹھے ہیں مگر پھولوں کو تو باغ کی کھلی فضا درکار ہے۔ اس تہہ خانے میں بھی پوری ایک دنیا آباد ہے۔ وہی حمامِ سگاں تھے یعنی کتوں کے سوئمنگ پول۔

وہی گرگِ بارہ دیدوں کی مجلس ہے وہاں وہی بھیڑیوں کی قانون سازی۔ ہر گلی میں مجنون کے ہاتھوں لیلیٰ کی آبروریزی ہے۔ یا اللّٰہ خیر۔

میں سیاست کے حیرت کدہ میں گھومتے گھومتے خود آپ سراپا حیرت بن گیا ہوں۔ حیرتی آنکھیں بھی مجھے حیرت سے دیکھنے لگی ہیں۔ حیرت کیا ہے۔ حیرت بے یقینی کی ساعت ہے جو مسلسل یقین کی طرف گامزن رہتی ہے۔

حیرت آنکھ میں اترتی ہے اور دماغ میں پھیل جاتی ہے اور آنکھ بیچاری حدود میں رکھی ہوئی آنکھ... سچ اور جھوٹ کا کہاں فیصلہ کر سکتی ہے اور بیچارہ دماغ سچ تک پہنچ ہی نہیں سکتا کہ اس نے اپنے فہم کی بنیاد آنکھ پر رکھی ہوئی ہے۔ اسے کیا علم کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے وہاں بھی ایک جہان آباد ہے۔ ذرہ صرف ذرہ نہیں ہزاروں ایٹموں کا اجتماع ہے۔

آدمی صرف آدمی نہیں ایک کائنات ہے۔ اس کے ہزاروں رنگ ہیں اور ہر رنگ میں لاکھوں شیڈز ہیں اور ہر شیڈ میں کروڑوں تصویریں پوشیدہ ہیں۔ معاملہ صرف تلاش کا ہے اور تلاش کی کوئی انتہا نہیں۔

نہ تھکتی ہے نہ رکتی ہے بس چلتی رہتی ہے۔ سیاست بھی اسی طرح تبدیلی کی تلاش میں رواں دواں ہے۔ یہاں تلاش کا عمل عجیب و غریب ہے۔ آم کے پیٹر پر ناشپاتیاں، باداموں کے درختوں پر امرود، کیکر کے درختوں پر اخروٹ دکھائی دیتے ہیں۔

شاہراہِ سیاست پر کہکشائیں جوتوں کے تلوئوں پر چپکی ہوئی ہیں۔ پانی بلندی کی سمت بہہ رہا ہے۔ برف دھوپ سے نکل رہی ہے۔ سورج چھائوں دے رہا ہے۔ چھتیں دیواروں کے بغیر ہیں۔ یا اللّٰہ خیر۔

اس نے پوچھا یہ کائنات کہاں سے آئی ہے؟ میں نے کہا کونسی کائنات۔ خارجی یا باطنی؟ کہنے لگا دونوں۔ میں نے کہا خارجی کائنات باطنی کائنات سے نکلی ہے اور باطنی کائنات شاید میں ہوں۔ اس نے کہا ’شاید کیوں‘ میں نے کہا ’یقین کوئی شے نہیں۔ایک انتہائی طاقتور وہم ہے۔

ایک سمجھ میں نہ آنے والا دھوکا ہے۔ اس نے کہا ’پھر سچائی کیا ہے‘؟ میں نے کہا ’بے یقینی کا دائرہ‘ اس نے کہا، ’دائرہ آدمی خود بناتا ہے، چاہے یقین کا دائرہ بنائے چاہے بے یقینی کا‘۔ میں نےکہا ’ہاں اور پھر عمر بھر اسی دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ شاید دائرے کو انسانی سائیکی کہتے ہیں۔

یہی دائرہ جب خول بن جاتا ہے تو اس سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ جالے بننا اور پھر جالوں میں دفن ہو جانا انسان کا مقدر ہے‘۔

اس نے کہا نہیں ’کچھ لوگ دائروں کے باہر بھی ہوتے ہیں جنہیں دکھ زخم نہیں لگا سکتے، جنہیں درد کراہیں نہیں دے سکتے، میں جب پہلی بار دائرے سےباہر آیا تو سامنے ایک سایہ دار درخت تھا جس کے نیچے پانی کا چشمہ تھا اور اس کے اردگرد سنہری پھول کھلے ہوئے تھے۔

میں جب وہاں گیا تو میری ملاقات ایک اور کائنات سے ہوئی تھی۔ میں پھر اسی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا وہ مجھے ایک اور نظام شمسی میں لے آئی جہاں ایک اور سورج میرا منتظر تھا۔ میں اُس سورج کے ساتھ چل پڑا اور بھی بہت سے لوگ ساتھ ساتھ چل رہے تھے مگر دوسری طرف بھی ایک ہجوم تھا جو کہہ رہا تھا یہ سورج نہیں یہ تو ایک سیاہ گولا ہے۔

تم اندھے بھی نہیں ہو تمہیں الٹ دکھائی دیتا ہے مگر میں ابھی تک ایک سچائی کے ساتھ ایک یقین کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہوں‘۔ یا اللّٰہ خیر۔

بے شک کئی بارشاخِ ذہن میں ہلکی سے لرزش ہوئی ہے۔ پرندے ذرا سے پھڑ پھڑائے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی گردن کو کھینچ کر لمبا کیا ہے۔ سروں کے اوپر بنی ہوئی کلغیاں تنی ہیں۔ وہ ہوا میں غوطہ زن ہوئے ہیں۔

میں ذرا سا ڈگمگایا ہوں مگر پھر کہکشائوں کو چیرتا ہوا سورج سے جا ملا ہوں۔ جہاں رنگ و نور کی ٹرینیں بھی چلتی ہیں۔ ٹیلی فون بھی ہوتے ہیں۔ ای میلز بھی آتی جاتی ہیں۔

کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ اسکرین پر چلنے والی فلم کے سین میں فلم بین داخل ہو گئے۔ جوتوں کے تسمے اور سینڈلوں کے بکل کھلے اور غیر پسندیدہ کرداروں کے چہروں پر ان کےنشان پڑے۔

بیگ گرائونڈ میوزک میں گالیوں بھرے تبصرے۔ شر کے شاٹ میں خیر کی جیپ دوڑنے لگی۔ جسموں پر ٹائروں کے نقش۔ وہ ایک تیز رفتار ٹرالر اسکرین سے نکلا ہے اور ڈرائنگ روم کو گراتا ہوا سڑک پر آگیا ہے۔ یا اللّٰہ خیر۔

جس نے کل ووٹ 25979 لئے تھے اُس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کو یہ کہہ کر ڈی سیٹ کردیا گیا کہ ان کے باون ہزار ووٹ جعلی ہیں۔

دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ کیا غیر ملکی فنڈنگ کیس سے پاکستان کی سیاست بدل سکتی ہے یعنی الیکشن کمیشن اس کیس میں تحریک انصاف کو ہی بین کرنے لگا۔ یا اللّٰہ خیر۔