اپوزیشن کا بکھیڑا

October 06, 2019

موجودہ اپوزیشن سے اگر میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کے نام منہا کر دئیے جائیں تو مزاحمتی اصطلاح کی بنیاد پہ یہ شاید ہی اپوزیشن کہلائے جانے کی مستحق ٹھہرے۔ بنابریں یہ پارلیمانی اصولوں کے مطابق اپوزیشن کے درست معنی کا بھی شاید ہی عکس ثابت ہو۔ جو اپوزیشن اپنی ہی لائی ہوئی تحریک عدم اعتماد کے خلاف حکمران جماعت کی دست و بازو بن جائے، اُسے معروف سیاسی روایات کی روشنی میں بھلا کیونکر اپوزیشن مانا جا سکتا ہے۔

ایک سال کی عمر کی اس اپوزیشن نے اب تک اپنے طرزِ عمل سے ثابت یہ کیا ہے کہ اس میں شامل کوئی بھی جماعت اپنے گروہی مقصد کیلئے کسی بھی وقت متفقہ و متعین مقصد کو سبوتاژ کرنے کیلئے آمادہ ہو سکتی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ جیسی آج کل سیاست موقع پرست ہوگئی ہے، اپوزیشن نے بھی خود کو اس کا حصہ بننے پر تیار کر لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے اُن اراکین سینیٹ کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو حکومت پر اپوزیشن کی پہلی شدید ضرب میں مانع ہوئے۔

اس سے یہ خیال مزید تقویت پذیر ہوگیا ہے کہ کوئی اب بھی بڑی جماعتوں میں سے ایسا ہے جو کسی کی ناراضی مول لینے کی استعداد سے تہی دامن ہے۔ بنا بریں جب بقول حفیظ جالندھری معاملہ یہ ہو کہ

کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ

پیتا ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں

تو یقین کا ایسا سماں، منزل کی جانب رواں، ایک کارواں کو جو مطلوب ہوتا ہے، کیسے بن پائے گا؟ حالانکہ ایسے ہی معروضی حالات ہوتے ہیں جب راہبر چل پڑتے ہیں۔ تین اکتوبر کے اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق پاکستان بیورو آف شماریات کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 12.55فیصد اضافہ ہوا ہے، سبزی، چائے، آٹے، آلو، تازہ دودھ، دال، تیل، گھی کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 7اور دیگر کی قیمتوں میں 5فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ایک طرف اگر حکومت کی بے رحمی کا یہ حال ہےکہ قیمتیں ایسی اشیا کی بڑھائی جارہی ہیں جس کے بغیر جسم و جاں کا رشتہ برقرار نہیں رہ سکتا، جیسے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہونا، تو دوسری طرف ہر وزیر خود کو نااہل ثابت کرنے کیلئے زور لگا رہا ہے۔

اس سے حکومتی کارکردگی کا عکس پوری طرح نمایاں ہو رہا ہے۔ قول و فعل میں تضاد کے ایسے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں کہ تاریخ شاید انہیں محفوظ کرنے سے انکار کر دے۔ سب سے بڑا المیہ، سانحہ مقبوضہ کشمیر ہے اور وزیراعظم کا خود یہ کہنا ہے کہ دنیا اُن کی بات سمجھ نہیںپا رہی۔ الغرض ملکی منظر نامہ ایک ایسے لاوے کا اشارہ ہے جو ذرا سے دبائو پر پھٹ پڑ سکتا ہے۔

جن ممالک میں سیاستدانوں اور عوام کے مابین اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے، اُن ممالک میں ایسے ہی حالات ہوتے ہیں جب کسی حکومت کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ پاکستان مگر مختلف مزاج کا حامل ہے، اس کا عملی مظاہرہ ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے تو حکمرانوں نے بھی اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے لیکن دمادم مست قلندر سے قبل کوئی اور نہیں، یہ اپوزیشن کے سیاسی چوہدری و وڈیرے ہی ہیں جو مولانا صاحب کے بڑھتے قدم روکنے کیلئے پڑائو ڈالے ہوئے ہیں۔ سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی تبدیلی اشیرباد کے بغیر نہیں آتی، بالفاظ دیگر یہ سابق حکمران طبقات اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر عوامی قوت پر حرکت سے زیادہ بالا بالا برکت پر یقین رکھتے ہیں۔

ایک نکتہ جو اپوزیشن کی صفوں میں زیر بحث ہے، یہ کہ مدارس کے طلبا کے بل بوتے پر برپا ایک تحریک کے اگر نتائج برآمد بھی ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ نئی حکومت تک دراز ہو جاتا ہے، پھر کیونکر ایسے ہی کسی آزادی مارچ سے بچا جا سکے گا؟ یہ نکتہ سنجیدہ مباحثے کا متقاضی ہے لیکن مارچ مخالف اپوزیشن لیڈروں کے سامنے اس اصولی بات سے زیادہ دیگر امور ہیں۔

یہ خیال بھی ہے کہ ماضی میں بڑی تحریکیں چلیں، جن کا نتیجہ آمریت پر منطبق ہوا مگر خطے کی صورتحال کے پیش نظر شاید اب ایسا مشکل تر ہو، جس طرح حکومت چل رہی ہے، یہ سلیقہ ہی اب آئیڈل ہے، ہاں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی تبدیلی کی کوئی اور شکل سامنے آ جائے۔ پھر مگر بہت دیر ہو چکی ہوگی، کیونکہ عوام کو نئے آسرے میں مگن کر دیا ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ملکی صورتحال بصیرت آفروز فیصلوں کی متقاضی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی و جہاندیدہ قیادت جو ان دنوں اپوزیشن میں جمع ہے، کس طرح خود کو ان سے عہدہ برآ ہونےکی اہل ثابت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے سامنے کی بات مگر بقول فراق گورکھپوری یہ ہے؎

منزلیں عشق کی تا حدِ نظر سُونی ہیں

کوئی رہرو نہ یہاں ہے، نہ وہاں ہے کہ جو تھا