اصلاح کی آڑ میں ثقافتی نسل کُشی

October 13, 2019

جواہر لال نہرو اپنی کتاب، ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں بھارت کو ایک قدیم چرمی کاغذ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس پر مختلف افکار و خیالات تہہ در تہہ کُندہ ہوں اور بعد میں جمنے والی تہہ نے پہلے کی تحریروں کو مکمل طور پر چُھپایا یا مٹایا نہ ہو، جب کہ اپنے مُلک کے پہلے وزیرِ اعظم کے برعکس مودی سرکار’’ ہندو توا‘‘ نظریے کے تحت بھارت کا سیکولر تشخّص ختم کرتے ہوئے اسے ایک ہندو ریاست بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے آواز بلند کرنے والے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے علاوہ بھارت میں اسلامی ناموں کے حامل شہروں ،مقامات کے نام تبدیل کرنے کی مُہم بھی زوروں پر ہے۔ بھارتی ذرایع ابلاغ کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت کے 6لاکھ 77ہزار دیہات میں سے 7ہزار سے زاید ’’رام‘‘ اور’’ کرشنا‘‘ سے منسوب ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں مغل شہنشاہ، اکبر کے نام پر محض 234دیہات کا نام رکھا گیا ۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی ہندو اکثریت خود کو کیوں محصوراور بی جے پی انہیں کیوں ستم زدہ اکثریت تصوّر کرتی ہے۔یاد رہے کہ کم و بیش ہر 6بھارتی باشندوں میں سے ایک مسلمان ہے۔ ہندوئوں کے بعد مسلمان ہی مُلک کا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہیں اور بھارتی ریاست، اُترپردیش کی تقریباً 20فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ،جو یہاں صدیوں سے مقیم ہے۔

یوگی ادیتیہ ناتھ کے زبانی احکامات پر تبدیل کیے گئے مختلف مقامات کے نام

گرچہ بھارتی مسلمانوں، سیکولر طبقات اور دانش وَروں کی جانب سے مودی سرکار کی اس نفرت انگیز مُہم کو کثیر الثقافتی بھارتی معاشرے کے لیے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے، لیکن بی جے پی کی حکومت تاریخ کی دُرستی کے نام پر مسلمانوں کی شناخت مٹانے کےدَرپےہے۔ ’’اصلاح‘‘ کی آڑ میں جاری شہروں، مقامات کےاسلامی ناموں کی تبدیلی کے عمل کو ’’ثقافتی نسل کُشی‘‘ جیسے طویل عمل کا ایک حصّہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہر چند کہ یہ اصطلاح بعض طبقات کو گراں گزرے گی، لیکن اپنی کتاب، ’’ایکسز رُول اِن اوکو پائیڈ یورپ‘‘ میں نسل کُشی کی اصطلاح وضع کرنے والے رافیل لیمکن کا ماننا ہے کہ کسی گروہ کی ثقافتی تباہی بھی اُتنی ہی اہمیت رکھتی ہے، جتنا کہ اُس کے ارکان کا مادّی انہدام۔ لیمکن کے مطابق، ’’ دنیا میں اتنا ہی ثقافتی و عقلی دَم خَم پایا جاتا ہے، جتنا کہ اُس کے جُزوِ ترکیبی قومی گروہوں نے تخلیق کیا ہے۔ بنیادی طور پر قوم کا تصوّر تعمیری اشتراک اور حقیقی امداد پر دلالت کرتا ہے، جو کھری روایات، خالص ثقافت اور ترقّی یافتہ نفسیات پر استوار ہوتا ہے۔

لہٰذا، کسی قوم کی تباہی کا نتیجہ مستقبل میں دُنیا میں اس کے کردار میں گھاٹے کی صورت برآمد ہوتا ہے۔ تہذیب و تمدّن کی ترقّی میں نمایاں کردار ادا کرنے والی بنیادی خصوصیات میں اُن قومی اوصاف کا احترام اور ستایش بھی شامل ہے، جن کی شکل میں مختلف اقوام نے عالمی ثقافت میں اپنا حصّہ ڈالا۔‘‘

ارون جیٹلے کی موت کے بعد دہلی میں واقع فیروز شاہ کوٹلا کرکٹ اسٹیڈیم کو بی جے پی کے آنجہانی رہنما سے موسوم کردیا گیا

گزشتہ دنوں دہلی اینڈ ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن نے اپنے سابق صدر، حکم راں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رُکن اور سابق وزیرِ خزانہ، ارون جیٹلے کے دیہانت کے بعد اُن کی خدمات کے اعتراف میں بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں واقع عالمی شُہرت یافتہ فیروز شاہ کوٹلا کرکٹ اسٹیڈیم کا نام ایک بڑی تقریب میں آنجہانی سیاست دان کے نام سے بدل دیا۔

تاہم، گراؤنڈ کا پرانا نام برقرار رہے گا، جسے تغلق خاندان سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے حکم راں، فیروز شاہ تغلق سے منسوب کیا گیا تھا، جنہوں نے 1351ء سے 1388ء تک دِلّی پر حکم رانی کی تھی اور اس دوران اپنی سلطنت میں نہریں، سرائے اور شفا خانے تعمیر کرنے کے علاوہ کنویں کھدوائے اور آبی ذخائر کی مرمّت بھی کروائی۔ نیز، دِلّی کے اطراف و اکناف میں جون پور، فیروز پور، حصار، فیروز آباد اور فتح آباد سمیت کئی دیگر شہروں کی بنیاد بھی رکھی۔

فیروز شاہ کوٹلا اسٹیڈیم کا نام بدلنے کی تجویز سابق بھارتی بلّے باز اور بی جے پی کے رُکنِ پارلیمنٹ، گوتم گمبھیر نے دی تھی۔ بھارتی مسلمانوں اور سیکولر طبقات کی جانب سے اس فیصلے کو ہندو توا کے نظریے کے تحت معروف مقامات اور شہروں کی اسلامی شناخت ختم کرنے اور بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی مودی سرکار کی انتہا پسندانہ مُہم کا حصّہ قرار دیتے ہوئے شدید غم و غُصّے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

قدیم بھارتی شہر، بنارس (اب وارا ناسی) کے مغل سرائے جنکشن کا نام پنڈت دین دیال کے نام سے بدل دیا گیا

یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ برس کے اخیرمیں بھارتی ریاست، اُتر پردیش کے انتہا پسند ہندو اور متنازع ساکھ کے حامل وزیرِ اعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ نے تاریخی شہر، الٰہ آباد اور فیض آباد کے نام بالتّرتیب پریاگ راج اور ایودھیا سے تبدیل کر دیے تھے اور اس اقدام کی مقامی مسلمانوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ اس متنازع فیصلے پر الٰہ آباد سے تعلق رکھنے والے 40سالہ سیاسی کارکن، ارشاد اللہ کا انتہائی رنج کے عالم میں کہنا تھا کہ ’’ یہ محض کسی مخصوص مقام کا نام تبدیل کرنے کا معاملہ نہیں، بلکہ ہماری اور ہندوستان کی تاریخ کی بقا کا مسئلہ ہے۔

بی جے پی سرکار فقط اس لیے نام تبدیل کرنا چاہتی ہے کہ یہ مغل حکم رانوں نے رکھے تھے۔ شہنشاہ اکبر نے دریا کے قریب واقع پریاگ راج نامی علاقے کو چھیڑے بغیر ہی الٰہ باد تعمیر کیا تھا۔ چوں کہ ریاست اور وفاق میں بی جے پی کی حکومت نے کوئی ایسا ٹھوس کام نہیں کیا کہ جسے وہ اپنی کام یابی سے تعبیر کر سکے، چناں چہ وہ انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے سیاسی انتہا پسندی کو پروان چڑھا رہی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف بھارت کی اسلامی تاریخ کا نام و نشان مٹانے کی کوشش ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں مذہب کے نام پر ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں خلیج بھی پیدا ہو گی۔ مَیں اپنے برتھ سرٹیفکیٹ پر اپنی جائے پیدائش تبدیل نہیں کروائوں گا۔

بھارت کے تاریخی شہر، الٰہ باد کا نام بدلنے کے فیصلے کے بعد انتہا پسند ہندو الٰہ باد ریلوے جنکشن کے بورڈ کو پریاگ راج کے پوسٹر سے ڈھانپ رہے ہیں

الہٰ باد سے میری کئی اہم یادیں وابستہ ہیں۔ میں اسے ابھی بھی پریاگ راج کی بہ جائے الہٰ باد ہی کہوں گا۔‘‘ 16ویں صدی عیسوی میں مغل شہنشاہ، اکبرِ اعظم کی جانب سے قائم کیا گیا شہر، الٰہ باد، پریاگ راج نامی قدیم شہر سے متصل ہے۔ اسی طرح فیض آباد ہندو اکثریتی علاقے، ایودھیا کے سامنے واقع ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ پریاگ راج ایک رشی مُنی، جب کہ ایودھیا، رام کی جائے پیدایش ہے اور مغلیہ دَور میں ان کی جگہ الٰہ باد اور فیض آباد کو تعمیر کیا گیا تھا۔

تاہم، فیض آباد کے رہائشی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیہ اَودھ یونی ورسٹی سے وابستہ تاریخ داں، پروفیسر این کے تیواڑی انتہا پسندو ہندوئوں کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مغلوں نے ہندوئوں کے مقدّس مقامات کے نام تبدیل نہیں کیے۔ تاریخی نقطۂ نظر سے قرونِ وسطیٰ کے شہروں کی نام کی تبدیلی دُرست نہیں۔ تاہم، اس وقت مُلک میں ایسی سیاسی فضا بن چکی ہے کہ اگر آپ اس کے خلاف آواز اُٹھائیں گے، تو آپ کو ہندو مخالف یا بھارت مخالف قرار دے دیا جائے گا۔ مودی سرکار ناکام ہو چکی ہے اور عوام کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ تاہم، بھارتی عوام بی جے پی کی اس سیاست سے واقف ہیں۔‘‘

اس کے برعکس بی جے پی نام کی تبدیلی کو معمول کی کارروائی قرار دیتی ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی کے ترجمان، سودیش ورما کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستان کی، جسے پہلے مغلوں اور پھر انگریزوں نے اپنے زیرِ نگیں کیا، اصل رُوح کی بازیافت ضروری ہے۔ لہٰذا، نام کی تبدیلی اپنی عظمتِ رفتہ کو یاد کرنے ہی کا ایک طریقہ ہے اور ویسے بھی پریاگ راج اور ایودھیا بالتّرتیب الٰہ باد اور فیض آباد کے مقابلے میں زیادہ ثقافتی نام ہیں۔ ہر چند کہ بھارت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے بغیر مکمل نہیں، لیکن یہ بات بھی دُرست ہے کہ کوئی قوم حملہ آوروں اور تلواروں کے ذریعے جبراً مذہب تبدیل کروانے والوں کو اپنا ہیرو قرار نہیں دے سکتی۔‘‘

علاوہ ازیں،2018ء کی ابتدا میں مودی سرکار نے یوپی میں واقع مغل سرائے نامی تاریخی ریلوے اسٹیشن کا نام بی جے پی کے نظریاتی رہنما ، پنڈت دین دیال اوپادھیا سے منسوب کر دیا۔ اسی طرح گزشتہ برس ہی یوپی کے وزیرِ اعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ نے سیّاحتی مقامات کی فہرست سے آگرہ میں واقع، تاج محل کا نام حذف کر دیا۔ تاہم، شدید مظاہروں کے بعد اسے دوبارہ فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

بھارتی مسلمان اور دیگر اقلیتیں حکومتی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کی متعصبانہ پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں

اس وقت بی جے پی کے آگرہ سے تعلق رکھنے والے قانون ساز، جگن پرساد گرگ اس تاریخی شہر کا نام بدل کر ’’اگر وال‘‘ رکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ’’ درحقیقت، آگرہ کا تعلق اگروال نامی ہندو کمیونٹی سے ہے اور مغل شہنشاہ نے اس کا نام بدل کر آگرہ رکھ دیا تھا۔

مَیں پرانا نام بحال کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘ اسی طرح گجرات کے مغرب میں واقع تاریخی شہر، احمد آباد کا، جو بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی کا آبائی شہر ہے، نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ اس حوالے سے دہلی میں واقع، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے وابستہ تاریخ داں، پروفیسر ادیتیہ مکھرجی کا کہنا ہے کہ ’’نام کی تبدیلی بہ ذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔ ماضی میں بھی نام تبدیل ہوتے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر بومبے، ممبئی اور کلکتہ، کولکتہ ہو گیا، کیوں کہ تلفّظ کی دُرستی مقصود تھی۔ تاہم، حالیہ تبدیلیاں مسلمانوں کو بد نام کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ مودی سرکار یہ تاثر قائم کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان پر دیسی ہیں اور چوں کہ انہوں نے ہندوستان پر حملے سمیت ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا، لہٰذا مسلمانوں سے منسوب مقامات کے نام تبدیل کر دیے جائیں۔‘‘

تاریخ داں کا مزید کہنا تھا کہ ’’فاشزم کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اندر سے دشمن تخلیق کرتا ہے۔ بی جے پی بھی اسی پر عمل پیرا ہے اور مسلمانوں، عیسائیوں، دَلتوں اور دوسری اقلیتوں میں سے دشمن تخلیق کر رہی ہے۔ اس قسم کی سیاست کے نتائج مُلک کے لیے خطرناک ہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس کے خلاف لڑنا چاہیے، کیوں کہ جب یہ سوچ سرایت کر گئی، تو پھر لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘

مغل سرائے، الٰہ آباد اور فیض آباد کے نام تبدیل کرنے کے بعد اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رہنمائوں نے مغلوں اور دوسرے مسلمان حکم رانوں سے وابستہ دیگر مقامات کے نام تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ گرچہ کئی مقامات کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں، لیکن مظفّر نگر، آگرہ اور سلطان پور کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے تو کھلے عام بحث مباحثہ جاری ہے۔ اس بارے میں میرٹھ سے رُکنِ اسمبلی، سنگیت سوم کا کہنا ہے کہ مظفّر نگر کو جلد ہی لکشمی نگر سے بدل دیا جائے گا، جب کہ آگرہ سے تعلق رکھنے والے رُکنِ اسمبلی، جگن پرساد گرگ نے مطالبہ کیا ہے کہ تاج محل کے شہر کو آگرہ وان یا اگر وال قرار دیا جائے۔

علاوہ ازیں، بی جے پی کے ایک اور ایم ایل اے، دیو مانی گزشتہ برس اگست میں سلطان پور کو کُش بھاون پور میں میں بدلنے کے لیے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ کُش، رام کے بیٹے کا نام ہے۔ گرگ کا دعویٰ ہے کہ آگرہ کا پرانا نام آگرہ وان تھا۔ یہ یہاں کسی دَور میں رہنے والی اگروال کاروباری برادری سے اخذ کیا گیا تھا اور ہندی لفظ، ’’وان‘‘ کے معنی جنگلات ہیں۔ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ سے تحریری طور پر آگرہ کا نام بدلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ آگرہ وان سے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔

مسلم حکم رانوں نے غلامانہ نام نافذ کرتے ہوئے آگرہ وان کا نام آگرہ رکھا۔‘‘ سنگیت سوم کا دعویٰ ہے کہ مظفّر نگر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ عوامی جذبات کی نمایندگی کرتا ہے۔ تاہم، جب صحافیوں نے اُن سے پوچھا کہ ’’کیا وہ مظفّر نگر کا پرانا نام لکشمی نگر ہونے کے حوالے سے کوئی تاریخی دستاویز یا حوالہ پیش کر سکتے ہیں، تو انہوں نے یہ گول مول جواب دیا کہ ’’ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج سے 20برس قبل لاکھوں افراد مظفّر نگر میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک ہوئے تھے، جہاں انہوں نے لکشمی نگر کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی۔

البتہ نام سے متعلق مواد انٹرنیٹ پر بہ آسانی دست یاب ہے۔‘‘ تاہم، تاریخی سرکاری ریکارڈ میں آگرہ وان اور لکشمی نگر کا کوئی ذکر نہیں۔ 1976ء کی ضلعی فرہنگِ جغرافیہ سے پتا چلتا ہے کہ شاہ جہاں کے دَور میں سَرور نامی ایک قدیم قصبے میں مظفّر نگر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہ مقام شاہ جہاں کے وزیر، عبدالمظفّر خان سے منسوب ہے، جنہیں جاگیر میں 40 دیہات ملے تھے۔ انہوں نے ایک نئے قصبے کی بنیاد رکھی تھی، جس کی تعمیر اُن کے بیٹے، عبدالمنصور خان نے مکمل کروائی اور اس کا نام اپنے مرحوم باپ کے نام پر پر مظفّر نگر رکھا۔ سَرور اُن کی جائیدادوں میں شامل سب سے بڑا قصبہ تھا، لیکن وہ تقریباً ویران تھا۔‘‘

بھارتی وزیرِاعظم ،نریندرمودی اور اُترپردیش کے متنازع وزیراعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ

آگرہ کے 1905ء کے سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یہ لفظ یا تو اگر وال بنیائوں، اگر ( ایک ایسا برتن یا گڑھا، جس میں سمندری پانی بھرا ہو اور اُسے خُشک کر کے نمک حاصل کیا جائے)، اگر (مکان) یا پھر اگو (آگ) سے اخذ کیا گیا ہے۔ تاہم، الٰہ باد یونی ورسٹی سے ریٹائرڈ اور ماہرِ مغلیہ سلطنت، لئیق احمد کہتے ہیں کہ ’’ آگرہ کا اگر وال کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ’’آگیرہ‘‘ یعنی ’’ مزید آگے‘‘ سے نکلا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 1504ء میں ابراہیم لودھی اپنی سلطنت کے نئے دارالحکومت کی تلاش کے لیے سفر پر روانہ ہوا۔

راستے میں ایک مقام کی بلندی اُسے موزوں لگی، تو وہ وہاں ٹھہر گیا۔ اُس نے ٹولی کے کپتان سے پوچھا کہ کیا یہ جگہ مسکن بنانے کے لیے مناسب ہے، تو اُس نے جواب دیا کہ’’ آگیرہ‘‘ یعنی ’’مزید آگے۔‘‘ یوں اس جگہ کا نام آگرہ پڑ گیا۔‘‘ لئیق احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے کمپری ہینسو ہسٹری آف انڈیا کی جلد نمبر 6میں موجود لودھیوں سے متعلق باب سے یہ حوالہ دیا ہے اور اسے انڈین ہسٹری کانگریس نے شایع کیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مظفّر نگر کا لفظ لکشمی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

اس سلسلے میں ایک اور علمی شخصیت، سہیل ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’’ بی جے پی کے رہنما مظفّر نگر اور آگرہ کے لکشمی نگر اور آگرہ ا وان سے تعلق کے بارے میں تاریخی شواہد پیش کریں۔‘‘ اس بارے میں اُتر پردیش حکومت کے ترجمان، شری کانت شرما کا کہنا تھا کہ ’’حکومت مقامات کے نام بحال کرنے کے لیے مزید درخواستوں پر غور کرے گی۔ ہم صرف ماضی میں کی گئی تحریفوں اور غلطیوں کو درست کر رہے ہیں۔‘‘

بی جے پی کو اپنے اس اقدام پر اپنے اتحادیوں کی جانب سےبھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ریاستی کابینہ میں شامل وزیر، اوم پرکاش راج بھر کا کہنا ہے کہ ’’پس ماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کی اپنے حقوق سے توجّہ ہٹانے کے لیے، بی جے پی سرکار نام تبدیل کرنے کا ڈراما رچا رہی ہے۔ بھارت کے لیے مسلمانوں کی خدمات بے مثال ہیں۔ اگر مودی سرکار مسلمانوں کو برداشت نہیں کر سکتی، تو سب سے پہلے اپنے مسلمان ارکان کے نام تبدیل کرے۔‘‘

ماہرِ سماجیات، سنجے سری واستو کا مودی سرکار کے غیر دانش مندانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’’ یہ بھارت کی اجتماعیت پسند شناخت کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ گرچہ اس طرح بی جے پی مُلک میں موجود قدامت پسند ہندوئوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتی ہے، لیکن اس کا یہ پیغام انتہائی متعصبانہ ہے۔

گوکہ گزشتہ 50برسوں میں کم و بیش ایک سو شہروں اور قصبوں کے نام تبدیل کیے گئے، لیکن اس مرتبہ یہ سب خالصتاً مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔‘‘ نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر، پارکشت گھوش کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی اس مُہم کا مقصد عوام کی توجّہ اپنی حکومت کی نااہلی و ناکامی سے ہٹانا ہے۔ اسی طرح بھارت کے بے شمار سیکولر سیاست دان بی جے پی کی نام تبدیلی مُہم پر چراغ پا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے ایک کثیر النّسلی اور کثیر المذہبی مُلک کے سماجی و سیاسی تنائو میں اضافہ ہو گا۔ لوک تانترک جنتا دَل پارٹی کے رہنما، شرد یادیو کہتے ہیں کہ ’’ بی جے پی کی نفرت انگیز مُہم بھارت کے کثیر الثقافتی معاشرے کو للکارنے کے مترادف ہے۔

1947ء میں تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک مُلک کے سماجی و سیاسی منظر نامے پر اسی رنگا رنگی کا غلبہ رہا ہے، جب کہ مودی سرکار بڑی بے شرمی و ڈھٹائی سے اسلامی ناموں والے شہروں کے نام بدل رہی ہے۔‘‘ مسلمانوں اور مؤرخین کے ساتھ بھارت میں موجود سماجی کارکنوں نے بھی مذہبی بنیادوں پر شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کی مُہم کو بھارتی ثقافت اور وَرثے پر حملہ قرار دیا ہے۔ مشہور سماجی کارکن، سابق سرکاری ملازم اور مزدور، کسان شکتی سنگاتھن نامی تنظیم کی بانی، ارونا رائے کا کہنا ہے کہ ’’ تاریخی مقامات کی نام کی تبدیلی شرم ناک ہے۔

اس سے بھارت کی رنگا رنگی اور ہماری تاریخ اور تاریخی تعلقات پر ضرب پڑی ہے۔ مُلک کو موجودہ مقام دلانے میں ہر طبقے نے حصّہ ڈالا ہے۔ بی جے پی کے ان اقدامات سے لوگوں میں دُوریاں مزید بڑھیں گی اور اقلیتوں میں تنائو پیدا ہو گا۔ ہمیں دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اس صورتِ حال کو پُر تشدد ہونے سے روکنا ہے۔ گرچہ اس وقت ہمیں مختلف محاذوں پر شکست کا سامنا ہے، لیکن ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔‘‘ نکھیل دیو نامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ ’’بھارت کی ثقافت اتحاد کی عَلم بردار ہے۔

ہم ان ناموں کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ ہم ان سے راضی ہیں۔ ہمیں ان میں نو آبادیاتی دَور کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی کہ جس کی وجہ سے بعض نام تبدیل کیے گئے۔ یہ نام مختلف صُورتوں میں مقامی روایات اور ثقافت کا حصّہ رہے ہیں۔ بی جے پی سرکار صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے شہروں اور مقامات کا نام تبدیل کر رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو کل یہ لوگوں کے نام بھی تبدیل کر دیں گے۔ بی جے پی نے ایک فرقہ وارانہ مُہم شروع کی ہے۔ وہ ہم پر ایسے نام تھوپنا چاہتی ہے، جو مذہبی مفہوم رکھتے ہیں۔ مودی سرکار اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے مُلک میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی پھیلا کر آگ سے کھیل رہی ہے۔

(دائیں سےبائیں) نکھیل دیو ، منوج کے جھا اور ارونا رائے شہروں اور مقامات کے اسلامی نام بدلنے کی مذمت کر رہی ہیں

گرچہ بی جے پی نے ’’ایک قوم، بہترین قوم‘‘ کا نعرہ لگایا ہے، لیکن اگر اس قسم کی سیاست ہوتی رہی، تو بھارت کیسے متّحد ہو گا۔‘‘ اس بارے میں دہلی یونی ورسٹی سے وابستہ پروفیسر منوج کے جھا کا کہنا ہے کہ ’’ تاریخ بتاتی ہے کہ جب حکم رانوں کے پاس اپنی قوم کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، تو وہ نام تبدیل کرنے لگتے ہیں۔ بھارت ہمیشہ سے ایک وسیع و عریض سمندر رہا ہے اور اس حکومت کو، تاریخ میں ایک سمندر کو غلیظ مقام میں بدلنے والی حکومت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ‘‘

پروفیسر کے جھا کا گزشتہ برس گورکھ پور اسپتال میں آکسیجن سیلنڈرز کی کمی کے باعث درجنوں بچّوں کی موت جیسے الم ناک واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’مَیں سی ایم یوگی سے کہتا ہوں کہ جناب!براہِ مہربانی گیس سیلنڈرز کا نام بھی بدل کر ادیتیہ ناتھ رکھ لیں، تاکہ بچّے نہ مریں۔‘‘ مودی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ چوں کہ اقتصادی ترقی کے اعتبار سے بی جے پی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، لہٰذا وہ اس قسم کی حماقتیں کر رہی ہے۔ اگر معیشت، ملازمتوں اور سماجی بہتری کے لحاظ سے اس حکومت کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی کارکردگی منفی ہے۔ یہ حکومت صحت، تعلیم اور ملازمتیں نہیں دے سکتی، البتہ نام ضرور تبدیل کر سکتی ہے۔‘‘

مذہبی بنیادوں پر بھارتی شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے پر بھارت کا دانش وَر طبقہ بھی مودی سرکار پر تنقید کر رہا ہے۔ اس ضمن میں دہلی یونی ورسٹی سے وابستہ دانش وَر، اپور وانند کا ماننا ہے کہ ’’ہندی شاعر، بودھی ستوا لکھتے ہیں کہ پریاگ نامی مقام کا کبھی وجود ہی نہیں تھا، جسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اب دریافت کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اسی طرح گُڑ گائوں کو گورو گرام سے تبدیل کرنے کے لیے یہ فرضی داستان پیش کی گئی کہ گورو گرام درون اچاریہ کا مسکن رہا ہے۔

گُڑ گائوں کو فخریہ طور پر ایک مستقبل بیں شہر کہا جاتا رہا ہے، لیکن اس جدید رجحانات کے حامل شہر کا نام بدلنے پر شہریوں کی جانب سے کسی قسم کا احتجاج نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا گیا کہ درون اچاریہ کو، جس نے اپنے شاگرد، ایکا لاویا کا انگوٹھا کاٹ کر اسے اپاہج بنا دیا تھا، نام وَری عطا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔‘‘ اپور وانند مودی سرکار کی نام تبدیل کرنے کی مُہم کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ ہمیں بار ہا یہ بتایا جاتا ہے اور ہم اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں کہ کسی دَور میں بھارت ’’سونے کی چڑیا‘‘ تھا۔

گپتا دَور کو ’’ سوارنا یوگ‘‘ (عہدِ زرّیں) قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تاریخی تخیل ہی ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے یہ سُنہری دَور ختم ہو گیا اور اب ہمیں اُس عہد میں واپس جانا ہے۔ جب مَیں نے ایک عُمر رسیدہ اور منجھے ہوئے سوشلسٹ کو یہ آہ و زاری کرتے ہوئے سُنا کہ بھارتی باشندے اپنی بُزدلی کی وجہ سے ایک ہزار برس سے زاید عرصے تک غلام بنے رہے، تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ تصوّر ہم میں اس حد تک مزمن ہو چکا ہے کہ ہمارے تحت الشّعور کا حصّہ بن چکا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقعے پر وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ 1,200برس کی غلامانہ ذہنیت ہمیں تکلیف دے رہی ہے۔‘‘

اپور وانند مزید لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارا تحت الشّعور یہ کہتا ہے کہ بالخصوص مسلمانوں کے دَور میں ہندوستان میں کچھ نیا تخلیق نہیں کیا گیا۔ مسلم حکم رانوں نے پہلے سے تعمیر شدہ شہروں، مقامات کی توڑ پھوڑ کی، انہیں مسخ کیا اور اسلامی ناموں سے منسوب کر کے اُن کی بے حرمتی کی۔ چناں چہ بابری مسجد ایک نئی یادگار نہیں ہو سکتی اور اسے موجودہ ڈھانچے کے ملبے پر تعمیر کرنا ضروری ہے۔

اور نہ ہی تاج محل کی ضرورت ہے، کیوں کہ اسے ایک مندر پر تعمیر کیا گیا۔ ان مفروضوں کی وجہ ہی سے ہندوئوں میں یہ احساسِ کم تری پایا جاتا ہے کہ چوں کہ بھارت کی دُنیا بھر میں نمایندگی کرنے والی نشانیوں میں سے زیادہ تر اسلامی شناخت کی حامل ہیں، تو اس کے سبب بھارت ایک اسلامی مُلک دکھائی دیتا ہے۔

تاہم، پھر اس نام نہاد حقیقت سے ہمیں کسی حد تک طمانیت ملتی ہے کہ بھارت میں مقیم 95فی صد مسلمانوں کا اصل مذہب ہندو مَت ہے، جو بعد ازاں مسلمان ہوئے۔ لہٰذا، انہیں دوبارہ ہندو بنانا ممکن ہے اور اسی عقیدے کے تحت ہی مقامات اور شہروں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں۔‘‘ بھارتی مؤرخ ایک اہم نکتے کی جانب توجّہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمانوں کے صدیوں پر محیط عہد کے بعد بھی نہ پریاگ اور نہ ہی ایودھیا کا صفایا کیا گیا۔

ایودھیا نے فیض آباد کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھا اور الٰہ آباد نے پریاگ کو زندہ رکھا، لیکن ’’اصلیت والوں‘‘ کو اسلامی نام مٹانے کے بعد ہی آرام آئے گا۔ یاد رہے کہ بھارتی ثقافت ہی انہیں للکارے گی۔ مثلاً، پٹنہ، پتالی پتر، بانکی پور یا پٹنہ صاحب کے نام کیسے تبدیل کیے جائیں گے؟ شیخ پورہ سے کیسے نمٹا جائے گا، کیوں کہ ’’شیخ‘‘ ایک اسلامی نام ہے اور اس سے جُڑا ’’پورہ‘‘ سنسکرت کا لفظ ہے۔

پھر ہریانہ کے بعض دیہات میں مقیم مسلمانوں کے نام ہندوانہ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھارتی ثقافت میں رچ بس جانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ثقافت نام، لباس، خوراک اور عادات وغیرہ سے تشکیل پاتی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو اکثر نام نہاد بھارتی رسوم و رواج اپنانے کے لیے کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں ہندوانہ معیار اختیار کریں اور اب تو یہ تک کہا جانے لگا ہے کہ اُن کی مذہبی شناخت کے لیے مساجد ضروری نہیں۔‘‘

’’ابھی تو اور نام بدلنے ہیں‘‘،یوگی ادیتیہ ناتھ

معروف بھارتی اخبار، انڈین ایکسپریس کی خصوصی رپورٹ کے مطابق، یو پی کے وزیرِ اعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ شہروں اور مقامات کے نام بدلنے کے بہت شوقین ہیں ۔ یہ اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 1998ء میں گورکھ پور سے رُکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد شہر کے کئی مقامات کے نام تبدیل کیے۔

جیسا کہ اردو بازار کو ہندی بازار، علی نگر کو آریا نگر، میا بازار کو مایا بازار، اسلام پور کو ایشوا پور، لا ہالاد پور کو الاہا لاد پور اور ہمایوں نگر کو ہنو مان نگر سے بدل دیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر تبدیلیاں یوگی کے زبانی احکامات کی بنیاد پر کی گئیں ، وگرنہ بیش تر مقامات سرکاری کاغذات میں پرانے ناموں ہی سے رجسٹرڈ ہیں۔

یوگی کے اس مشغلے کے حوالے سے بھارتی اخبار، اکانومکس ٹائمز نے یہ رپورٹ کیا کہ بہ طور وزیرِ اعلیٰ نام زدگی سے ایک روز قبل انڈیا ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ابھی تو اور نام بدلنے ہیں۔‘‘ اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے یوگی کا کہنا تھا کہ ان مقامات کے نام مغلوں کے حملوں کے بعد تبدیل کیے گئے تھے اور اب انہیں ان کی اصل شناخت دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اسی انٹرویو کے دوران ایک موقعے پر انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بہ وقتِ ضرورت وہ ’’تاج محل‘‘ کو ’’رام محل‘‘ میں بدلنے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ نیز، انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ آئین کے آرٹیکل 1میں ترمیم سے ’’بھارت‘‘ کو ’’ہندوستان‘‘ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور انتہا پسند ہندو، یووا واہنی نے مشرقی اُتر پردیش میں واقع، اعظم گڑھ کو آریام گڑھ سے بدلنے کا مطالبہ بھی کیا۔

علاوہ ازیں، 2012ء میں سماج وادی پارٹی کی حکومت نے یوپی کے 8اضلاع کے نام تبدیل کیے تھے، جنہیں مایا وتی کی سابقہ حکومت میں نئے نام دیے گئے تھے۔ اس موقعے پر بِھیم نگر، پرا بُدھا نگر اور پنچیل نگر کو بالتّرتیب باہجوئی، شملی اور ہاپور سے تبدیل کیا گیا تھا۔ اسی طرح کنشی رام نگر، مہا مایا نگر، چھتر پتی شاہوجی مہا راج نگر، رام بائی نگر اور جے پی نگر کے نام بالتّرتیب کاس گنج، ہتھ راس، گوری گنج، کان پور دیہات اور امروہہ سے تبدیل کیے گئے تھے۔

50برس میں100شہروں،قصبوں کے نام تبدیل کیے گئے

گزشتہ برس الٰہ باد اور فیض آباد کا نام تبدیل کرنے سے قبل نصف صدی کے دوران ایک سو سے زاید بھارتی شہروں ، قصبوں کے نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ تاہم، یہاں چند نمایاں مقامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 2016ء میں بھارتی ریاست ہریانہ کے کاروباری مرکز، گُڑگائوں کو گورو گرام سے تبدیل کر دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ گُڑگائوں، گورو درون اچاریہ کے نام سے اخذ کیا گیا تھا، جنہوں نے پانڈوئوں اور کوروئوں کو فنِ حرب سکھائے تھے۔ بعد ازاں، پانڈوئوں نے اس گائوں کو گورو دکشنا کا نام دیا، جو بگڑ کر گُڑ گائوں بن گیا تھا۔ 2006ء میں بنگلور کا نام تبدیل کر کے بنگلورو رکھ دیا گیا، جس کے معنی ہیں، ’’محافظین کا شہر۔‘‘ 17ویں صدی کے دوران انگریزوں نے ہندوستان کے تاریخی شہر، بومبیم کا نام تبدیل کر کے بومبے رکھ دیا، جسے 1996ء میں ممبئی سے تبدیل کر دیا گیا۔

یہ لفظ ’’ممبا‘‘ یا ’’مہا امبا‘‘ (سرپرست دیوی) سے اخذ کیا گیا۔ 1991ء میں تری واندرم کا نام تھیرو اننتھا پورم سے تبدیل کر دیا گیا۔ ملیالم زبان میں جس کے معنی ہیں، ’’فرماں روا اننتھا کا شہر۔‘‘ اس شہر کی تہذیب ایک ہزار قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ 2001ء میں کلکتہ کا نام تبدیل کر کے کولکتہ رکھ دیا گیا، جو بنگالی اصطلاح، کولی کاتا سے اخذ کیا گیا۔

1996ء میں مدراس کا نام چینا کیساوا پیرو مل مندر پر چنئی اور کوچین کا نام کوچی رکھ دیا گیا۔ 2006ء میں بھارتی شہر، پونڈی چیری کا نام پوڈو چیری سے تبدیل کر دیا گیا۔ 1987ء میں اُتر پردیش کے تاریخی شہر، والٹیئر کا نام وشاکا پٹنم رکھا گیا۔ 1983ء میں گوہاٹی کو گوا ہٹی (چھالیا کی مارکیٹ) سے تبدیل کر دیا گیا۔ 1956ء میں ہزاروں برس سے بھارت کے ثقافتی مرکز، بنارس کا نام دو دریائوں، ورونا اور اسّی پر واراناسی رکھ دیا گیا۔

1998ء میں قدیم بھارتی شہر، پونا کا نام پونے سے تبدیل کر دیا گیا۔ 2014ء میں تریچور کا نام بدل کر تھریشور رکھ دیا گیا۔ 1974ء میں بھارتی شہر، بروڈا کا نام واڈو ڈارا سے تبدیل کر دیا گیا۔ 2014ء میں ناریلوں کے شہر، تمکر کا نام توما کارو رکھ دیا گیا۔ 2014ء میں بھارت کے تجارتی شہر، ہبلی کا نام ہبّالی سے تبدیل کیا گیا۔ اسی برس تاریخی شہر، میسور کا نام تبدیل کر کے میسورو رکھ دیا گیا۔

مینگلور کا نام مینگلورو سے بدلا گیا، جو منگل دیوی سے منسوب ہے۔ 2014ء ہی میں بیلاری کا نام بلاّری سے تبدیل کیا گیا اوراسی برس کیرالہ میں واقع کریگانور کا نام کو ڈنگل لور رکھ دیا گیا۔