پہلی بار پرائیویٹ ٹو پرائیویٹ پارٹی آر ایل این جی معاہدہ جلدمتوقع

October 13, 2019

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ) پہلی بار پرائیویٹ ٹو پرائیویٹ پارٹی آر ایل این جی فراہمی معاہدہ جلد متوقع ہے۔ معاہدہ ہونے کی صورت میں نجی کمپنیاں ، سرکاری کمپنیوں کے مقابلے میں سستی آر ایل این جی فراہم کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سوئی سدرن، سوئی ناردرن، پی ایس او اور پی ایل ایل کو گیس صارفین میں کمی کا خوف لاحق ہوگیا ہے اور ان کےدیوالیہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔تفصیلات کے مطابق،پاکستان کا ایل این جی کا منظرنامہ بدلنے جارہا ہے اور آر ایل این جی کے کاروبار پر حکومت کی اجارہ داری جلد ختم ہونے والی ہے کیوں کہ پہلی نجی کمپنی ، یونائیٹڈ گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی(یو جی ڈی سی) جو کہ پہلے ہی بین الاقوامی کمپنیوں ایگزون موبل اور ٹرے فیگیورا سے ایل این جی فراہمی کے معاہدے کرچکی ہے۔ وہ اپٹما سے ایک طویل مدتی معاہدہ کرنے جارہی ہے جو کہ ٹی پی اے قواعد کے تحت 120ایم ایم سی ڈی ، آر ایل این جی فراہمی سے متعلق ہے۔تاہم سوئی ناردرن ، پی ایس او، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ اور سوئی سدرن تھرڈ پارٹی رسائی رولز عمل درآمد سے قبل ہی دبائو میں آنا شروع ہوچکی ہےکیوں کہ ان اداروں کا ماننا ہے کہ آر ایل این جی صارفین جیسا کہ برآمدی صنعت، عام صنعتیں اور سی این جی سیکٹر، نجی پارٹیز سے آر ایل این جی خریدنا شروع کردیں گی۔ان اداروں کو پریشانی یہ ہے کہ نجی کمپنی او جی ڈی سی بہت سستی قیمتوں پر آر ایل این جی کی فراہمی شروع کردے گی۔ان اداروں کا کہنا ہے کہ وہ قطر، گنور اور ای این آئی سے معاہدے کے تحت آر ایل این جی خریدنے کے پابند ہیں، جو کہ اوپن مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ مہنگی ہے۔تمام حکومتی اداروں کو خطرہ ہے کہ حکومت اگر دو آر ایل این جی پاور پلانٹس کی نجکاری کرتی ہے تو وہ دونوں سوئی ناردرن سے آر ایل این جی لینا چھوڑ سکتے ہیں۔ان تمام تحفظات کا اظہار سوئی ناردرن نے 23ستمبر کو لکھے گئے اپنے خط میں کیا ہے جو کہ ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن کو لکھا گیا تھا۔ اسی طرح 24ستمبر کو ڈی جی گیس کو لکھے گئے خط میں سوئی ناردرن حکام کی نجکاری کمیشن کے حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس سے متعلق تفصیلات بیان کی تھیں۔ مذکورہ دستاویزات دی نیوز کے پاس موجود ہیں۔ٹیکسٹائل کی صنعت فی الحال سوئی ناردرن کی صارف ہے جو کہ 6اعشاریہ5ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے آر ایل این جی حاصل کررہی ہے۔اس کے لیے حکومت نے 25ارب روپے سالانہ تک کی سبسڈی دی ہےاور فیصلہ کیا ہے کہ یو جی ڈی سی سے معاہدے کرے۔مشیر اپٹما شاہد ستار نے دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت نے ہمیشہ حکومت سے درخواست کی ہے کہ انہیں آر ایل این جی کے بلز متفقہ 6اعشاریہ5 ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے بھیجے جائیں لیکن انہیں پوری قیمت کے حساب سے بلز بھیجے جاتے ہیں جو کہ 11ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو تک بنتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس پریشانی سے بچنے کے لیے ہم نے آر ایل این جی معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ، پٹرولیم ڈویژن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر اپٹما جاتی ہے تو سوئی ناردرن 150ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ آر ایل این جی صارفین کو فروخت نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ گزشتہ معاہدوں کی سپلائی کہاں جائے گی؟شاہد ستارنے ٹیکسٹائل صنعت سے درخواست کی کہ وہ تین ماہ کی آر ایل این جی استعمال پر دوہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے رقم جمع کرائیں ، جس سے اس صنعت کا لیکویڈیٹی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ سوئی ناردرن کا اپٹما اور دیگر پاور سیکٹرز کے ساتھ رویہ پیشہ ورانہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے بہت سے صارفین آر ایل این جی کے لیے یو جی ڈی سی کی جانب جارہے ہیں۔شاہد ستار نے اس اجلاس کا حوالہ بھی دیا جس میں وزیراعظم عمران خان نے پانچ سال کا توانائی پیکج فراہم کرنے کے لیے اجازت دی تھی، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔یو جی ڈی سی کے سی ای او غیاث عبداللہ پراچا سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیکسٹائل صنعت آر ایل این جی فراہمی کے لیے یو جی ڈی سی معاہدے میں دلچسپی رکھتی ہےاور اس ضمن میں اپٹما کی جانب سے باضابطہ طور پر خط موصول ہوچکا ہے۔آر ایل این جی کی قیمت سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہےتاہم وہ اپٹما کے حق میں ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاہدے سے حکومت کا ریونیو متاثر نہیں ہوگا بلکہ حکومت برآمدی صنعت کو جو 25ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے ، اپٹما اور یو جی ڈی سی کے درمیان معاہدے سے اس کی بچت ہوگی ۔تاہم اس متوقع معاہدے سے سوئی ناردرن، سوئی سدرن اور پی ایس او کو تھرڈ پارٹی رسائی (ٹی پی اے) رولز کے تحت بڑا خسارہ ہوگا کیوں کہ اس کے عام صنعتی صارفین بھی انہیں چھوڑ کر یو جی ڈی سی سے آر ایل این جی کم قیمت پر لیں گے۔پٹرولیم ڈویژن کے ترجمان ایڈیشنل سیکرٹری شیر افگن نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تھرڈ پارٹی رسائی رولز کے تحت نجی کمپنی آر ایل این جی درآمد کرسکتی ہے، جس کے لیے وہ گیس انفراسٹرکچر کا استعمال بھی کرسکتی ہے، جس کی وجہ سے گیس کمپنیوں کی اجارہ داری ٹوٹ جائے گی۔نئے منظر نامے میں ایل این جی اوپن مارکیٹ میں آچکی ہے، جس کی خاصی طلب بھی موجود ہے۔ڈی جی گیس کو لکھے گئے خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سوئی ناردرن موجودہ گیس سیلزمعاہدے پر عمل درآمد چاہتا ہے۔اس معاہدے کے تحت آر ایل این جی پلانٹس تقریباً66فیصد ضمانتی آر ایل این جی لینے کے پابند ہیں اور آرایل این جی پاور پلانٹس کے ساتھ ادائیگی معاہدہ نجکاری کے بعد بھی لازمی جاری رہنا چاہیئے ایسا نا ہونے کی صورت میں نئے مالکان سوئی ناردرن سے آر ایل این جی نہیں خریدیں گے۔جس کی وجہ سے آر ایل این جی سپلائی لائن میں شامل تمام سرکاری ادارے نادہندہ ہوجائیں گے۔دستاویزات کے مطابق، آر ایل این جی سپلائی چین میں شامل حکومتی کمپنیوں کو خوف ہے کہ نجی کمپنیاں ان کے صارفین کو اپنی جانب راغب کرلیں گی کیوں کہ وہ سستی قیمتوں پر آر ایل این جی فراہم کریں گی ، جب کہ حکومتی کمپنیاں قطر، گنور اور ای این آئی سے معاہدوں کے تحت مہنگی قیمتوں پر آر ایل این جی خریدنے کی پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی اداروں کو خوف ہے کہ وہ آر ایل این جی فروخت میں ناکام ہوجائیں گی ، جس کی وجہ سے ریکوری کرنا مشکل ہوجائے گا ، نتیجتآ سرکاری ملکیتی کمپنیاں دیوالیہ ہوجائیں گی۔دستاویزات کے مطابق،ایس این جی پی ایل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ تمام برآمدکنندگان کو مساوی کیا جانا چاہیئے۔جب کہ سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کی گیس کمپنیوں کو نقصان کی جانب نہیں دھکیلنا چاہیئے۔ایس این جی پی ایل حکومتی اداروں سے متفقہ قیمتوں پر آر ایل این جی فروخت کرنے کا پابند ہے ، جو کہ اس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔سوئی ناردرن نے بھی تھرڈ پارٹی رسائی رولز پر عمل درآمد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایس این جی پی ایل نے پٹرولیم ڈویژن ک ایڈیشنل سیکرٹری کو جو خط لکھا ہے اس کی نقل بھی دی نیوز کے پاس موجود ہے ۔اس میں ایس این جی پی ایل نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت آر ایل این جی کی کوئی اضافی طلب نہیں ہے اور تمام پارٹیز کی نظریں گیس کمپنیوں کے موجودہ صارفین پر ہے اور کوئی بھی نئے صارفین بنانے کا نہیں سوچ رہا۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ صارفین دوسری جگہ چلے جائیں ، جب کہ مجموعی طلب ورسد برقرار رہے۔سوئی ناردرن نے ای سی سی کے فیصلے پر بھی تنقید کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایل این جی ٹرمینل آپریٹرز کمرشل بنیادوں پر ٹرمینل کی اپنی اضافی ری گیسیفیکیشن صلاحیت تھرڈ پارٹیز کو مختص کرسکتی ہیں۔سوئی ناردرن کا ماننا ہے کہ مذکورہ دو ٹرمینلز میں تھرڈ پارٹی استعمال کے لیے کوئی اضافی صلاحیت نہیں ہے۔سوئی ناردرن نے اس صورت حال کے لیے یہ حل تجویز کیا ہے کہ تمام درآمد کنندگان کو اوسط وزن طریقہ کار کے تحت یکساں درآمدی قیمت فراہم کی جائیں۔اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں جمود کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ایل این جی میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کی طلب اب بھی موجود ہے۔لہٰذا نجی شعبہ لازمی طور پر سوئی ناردرن کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا تاہم اس کے باوجود اس کے پاس اچھے صارفین رہیں گے جیسا کہ ہائوسنگ سوسائٹیاں اور خصوصی اقتصادی زونز جو کہ سی پیک منصوبوں کے تحت قائم کی گئی ہیں۔پی ایس او کا آر ایل این جی فراہمی کے لیے قطر سے 15سال کا معاہدہ ہے۔البتہ پاکستان 10سال بعد معاہدے سے باہر آسکتا ہے۔اسی طرح پی ایل ایل گنور کے ساتھ تین سال اور ای این آئی نے اس سے پانچ سال کے لیے آر ایل این جی فراہمی کا معاہدہ کررکھا ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں ایل این جی پلانٹس کی صلاحیتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے، جس کی قیادت آسٹریلیا اور امریکا نے کی ہے۔جس کی وجہ سے خریداروں کی مارکیٹ کے قیام میں مدد ملی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خام تیل کی قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے خریداروں کو ایل این جی فراہمی کے حوالے سے نئے معاہدوں کے ضمن میں فائدہ ہورہا ہے۔