شام میں تُرک فوج کی کارروائی: تنگ آمد، بہ جنگ آمد

October 20, 2019

تُرک فوج شامی علاقے میں گشت کرتے ہوئے

شام کےشمال مشرقی علاقے پر تُرک فوج کے حملے کی اطلاع اُن افراد کے لیے اچنبھے کا باعث نہیں، جو شام کی موجودہ صورتِ حال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ شام میں گزشتہ 8برسوں سے جاری خوں ریزی کو اگر کوئی فریق اپنی فتح یا تنازعے کا حل سمجھتا ہے، تو وہ یا تو طاقت کے استعمال کا حامی ہے یا پھر احمقوں کی جنّت میں رہتا ہے۔

گرچہ اب نام نہاد امن مذاکرات کے ذریعے شامی مسئلے کا حل تلاش کرنے والوں کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں، لیکن شاید یہ ممکن نہیں۔ تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان نے 9اکتوبر کو شام کے شمال مشرقی حصّے میں فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا۔

کارروائی کا آغاز تل ابیض نامی علاقے سے ہوا اور اسے راس العین تک توسیع دی جائے گی، جسے کُرد ملیشیا، پیش مرگا کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ شامی، ایرانی اور رُوسی افواج کی کارروائیوں سے محفوظ رہا، جب کہ ادلیب میں بم باری روزانہ کا معمول بن چکی ہے۔ ادلیب، شامی اپوزیشن کا آخری اور مضبوط ترین قلعہ ہے، جہاں اس کا شامی فوج کے خلاف حتمی مقابلہ جاری ہے۔ امریکا، پیش مرگا کو اپنی حامی ملیشیا، جب کہ تُرکی ایک باغی گروہ قرار دیتا ہے۔ ماضی میں تُرکی نے با رہا امریکا کو متنبہ کیاتھا کہ وہ مذکورہ عسکری تنظیم کو اس کی سرحد سے دُور رکھے۔

شام کے شمال مشرق میں تُرک فضائیہ کی بم باری کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں

یاد رہے کہ پیش مرگا نے امریکی اَشیر باد سے اسی علاقے میں داعش کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ تب بشار الاسد اور اُن کے حلیف ممالک، ایران اور رُوس نے داعش کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں شامی اپوزیشن کو نشانہ بنایا۔ تاہم، تُرکی کی حالیہ پیش قدمی پر انہوں نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ تُرک افواج کا شامی علاقے پر حملہ دُنیا کے لیے اس بات کا واضح پیغام ہے کہ فی الوقت شامی مسئلے کا دُور دُور تک کوئی حل نظر نہیں آتا۔

یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آخر تُرک افواج نے شام میں کارروائی کیوں شروع کی اور کیا ایسا پہلی مرتبہ ہواہے؟ صدر اردوان نے حملے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ تُرکی اس علاقے کو کُرد ملیشیا سے پاک کر کے اسے ایک ’’سیف زون‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، جہاں تُرکی میں پناہ لینے والے کم و بیش 36لاکھ شامی مہاجرین کو بسایا جائے گا ۔

تُرک سرحد پر پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی خیمہ بستی کا ایک منظر

تُرکی تیسری مرتبہ شامی علاقے میں فوجی کارروائی کر رہا ہے اور اسے شامی اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسری جانب پیش مرگا نے، جسے اعلیٰ درجے کی لڑاکا فورس قرار دیا جاتا ہے، بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا ۔ اس کی تُرک فوج سے شدید جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں جانی نقصان بھی ہوا۔

چوں کہ تُرکی، شام کا ہم سایہ مُلک ہے، لہٰذا آج سے 8برس قبل شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی سے یہ بھی خاصا متاثر ہوا۔ 2011ء کے اوائل میں جب بشار الاسد کی افواج نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، تو اس کے فوراً بعد ہی تقریباً 15لاکھ شامی مہاجرین تُرکی میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ پھر جیسے جیسے شام میں خوں ریزی بڑھتی گئی، تُرکی میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انقرہ کی جانب سے پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم و بیش 36لاکھ شامی مہاجرین تُرکی و شام کی سرحد اور تُرکی کے مختلف شہروں میں موجود ہیں، جب کہ شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے، جو تُرکی کے علاوہ اُردن، عراق، لبنان اور کئی یورپی ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔

نقشے پر شام اور تُرکی کی سرحد پر بنے رفیوجی کیمپس کی نشان دہی کی گئی ہے

تُرکی میں شامی مہاجرین کی کثیر تعداد میں موجودگی سے، جو مزید مسائل جنم لے رہے ہیں، اُن سے بالخصوص یورپ خاصا پریشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شامی تارکینِ وطن کی آبادکاری کے حوالے سے اردوان اور جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار اور ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔

شامی مہاجرین، بشار الاسد اور اُن کے اتحادیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے 2014ء کے آخر میں غیر قانونی طور پر فِشنگ ٹرالرز کے ذریعے بحرِ روم کے راستے یورپ پہنچنا شروع ہوئے۔ اس عرصے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کائونسل میں شامی مسئلے کے حل کے لیے پیش کی گئی قراردادوں کو رُوس اور چین ویٹو کرتے رہے، جب کہ شامی حکومت جنیوا مذاکرات کو ناکام بناتی رہی۔ یعنی قیامِ امن کی کوششوں کو ہر ممکن حد تک سبوتاژ کیا گیا۔ پھر داعش سامنے آگئی اور ساری عالمی طاقتیں اس کی بیخ کنی میں مصروف ہو گئیں۔

اس موقعے پر بتایا گیا کہ داعش دُنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور کروڑوں شامی مسلمانوں کی تباہ حالی کی اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں۔ اس موقعے پر شامی صدر نے داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اپنی اپوزیشن کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

نیز، ایران کے بعد اُس وقت کے امریکی صدر، باراک اوباما کی کم زوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے رُوس نے بھی شام میں فوجی مداخلت شروع کر دی۔ رُوسی فضائیہ نے داعش کے خلاف کارروائی کو جواز بناتے ہوئے شامی شہروں پر بم باری کی، حالاں کہ دفاعی ماہرین کے مطابق ان شہروں میں داعش کا وجود تک نہ تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً 5لاکھ شہری لقمۂ اجل بن چکے ہیں، جب کہ ایک کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے۔ نیز، شام کے تاریخی شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

شامی اپوزیشن کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد 2015ء تک تُرکی، بشار الاسد کو صدر قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا اور اردوان اُن کے اقتدار سے ہٹنے کی صورت ہی میں شامی مسئلے کا کوئی حل قبول کرنے پر آمادہ تھے۔ تاہم، جب باراک اوباما نے مشرقِ وسطیٰ میں عدم دِل چسپی کا اظہار اور اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کیا، تو تُرکی کے لیے شامی اپوزیشن کا ساتھ دینا ممکن نہ رہا۔ یعنی شامی اپوزیشن کو ایک ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیا گیا کہ جب اُن پر شدید بم باری کی جا رہی تھی اور مغربی دُنیا، جو انسانی حقوق کی چیمپئن کہلاتی ہے، شامی مسلمانوں کی بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی۔

نتیجتاً، شامی مسلمانوں کی ہلاکتیں لاکھوں کی تعداد میں جا پہنچیں اور شامی پناہ گزین ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ بن گئے، جس کے حل پر کوئی آمادہ نہ تھا۔ امّتِ مسلمہ اور اقوامِ عالم کی بے حسی کے سبب شام میں نہ صرف ایک انسانی المیے نے جنم لیا، بلکہ شامی افواج نے اپوزیشن کے زیرِ اثر علاقوں پر قبضہ بھی شروع کر دیا۔

اس وقت صرف ادلیب ہی اپوزیشن کے پاس باقی بچا ہے اور یہ بھی کچھ عرصے میں اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بہر کیف، امریکا کی عدم دِل چسپی کے بعد تُرکی، رُوس، ایران اور شامی حکومت سے مذاکرات پر مجبور ہوا اوراس نے بشار الاسد کے اقتدار کو تسلیم کرنے کے اشارے دینا شروع کر دیے۔ تاہم، شامی مہاجرین کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ بعد ازاں، جب شامی پناہ گزینوں پر یورپ کے دروازے بند کیے جانے لگے، تو انہوں نے تُرکی کے بڑے شہروں کا رُخ شروع کر دیا۔

یورپی قوم پرستوں کی جانب سے شامی تارکینِ وطن کو اپنانے کی مخالفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں گلے لگانے کی وجہ سے جرمن چانسلر، اینگلا مرِکل کو انتخابات میں اکثریت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہاں تارکینِ وطن مخالف اور قوم پرست عناصر کی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً، شامی مہاجرین کا سارا بوجھ تُرکی پر آن پڑا اور اس کی وجہ سے تُرکی کے شہروں میں مختلف سماجی مسائل جنم لینے لگے، جن سے متعلق ماہرین پہلے ہی خبر دار کر چکے تھے۔ واضح رہے کہ تُرکی کے علاوہ اُردن اور لبنان میں بھی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں اوراس کے نتیجے میں پکنے والا لاوا بھی کسی وقت پھٹ سکتا ہے۔

اس نازک صورتِ حال کے پیشِ نظر تُرکی کی شام میں فوجی کارروائی قابلِ فہم ہے۔ یاد رہے کہ اپنے مُلک سے بے دخل ہونے والے افراد کو اپنی سر زمین کے علاوہ اور کہیں پناہ نہیں ملتی اور تباہی و بربادی اُن کا مقدّر بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں فلسطینی اور افغان مہاجرین کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام مہاجرین مسلمان ہیں۔ یعنی؎ برق گرتی ہے، تو بے چارے مسلمانوں پر۔ یاد رہے کہ شام میں خانہ جنگی کا آغاز غیر جانب دارانہ اور شفّاف انتخابات کے ذریعے نئی حکومت قائم کرنے کے مطالبے کے نتیجے میں ہوا تھا۔

اس وقت تُرکی کا مؤقف ہے کہ وہ شام کےشمال مشرقی حصّےمیں 32کلو میٹر پر محیط ایک بفریا سیف زون قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں تُرکی میں پناہ لینے والے 36لاکھ شامی باشندوں کو بسایا جائے گا۔ بالفرض، اگر شامی حکومت اس مؤقف کی مخالفت کرتی ہے، تو بھی ان شامی باشندوں کو اپنے مُلک میں آباد ہونے کا حق حاصل ہے اور دُنیا کا کوئی قانون انہیں نہیں روک سکتا۔

تاہم، اس موقعے پر امریکا کی یہ منطق ناقابلِ فہم ہے کہ یہاں کُردوں کو بسایا جائے، جنہوں نے داعش کے خلاف اس کی مدد کی۔اس وقت ایک کروڑ 20لاکھ شامی باشندوں کا مستقبل خطرے میں ہے، جب کہ اقوامِ عالم بے حسی و بے بسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اب امریکا اور یورپ کی مشرقِ وسطیٰ سے دِل چسپی ختم ہو چکی ہے اور اس کا اندازہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں فوجی مداخلت ان کے پیش روئوں کی سب سے بڑی غلطی تھی اور وہ امریکی افواج واپس طلب کر کے اُس غلطی کا ازالہ کر رہے ہیں۔

امریکی صدر کی یہ بات تو دُرست ہے، لیکن شام کو افراتفری کی نذر کرنے، لاکھوں جانوں کے زیاں اور شہروں کو کھنڈرات میں بدلنے کے بعد وہاں قیامِ امن کا ذمّے دار کون ہے اور ایک کروڑ سے زاید شامی مہاجرین کے ٹھکانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ شام میں تُرکی کی فوجی کارروائی سے اختلاف ممکن ہے، لیکن جب کوئی بھی ریاست شامی پناہ گزینوں کو جگہ دینے پر آمادہ نہیں، تو کیا پھر تُرکی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں ایک مرتبہ پھر اپنی سر زمین پر آباد کرے۔

حیرت کی بات ہے کہ امریکا کو شامی تارکینِ وطن کی بہ جائے کُردوں کا غم کھائے جا رہا ہے، حالاں کہ اُن کے پاس اپنی سر زمین موجود ہے، جس میں وہ آباد ہو سکتے ہیں۔ پھر 2008ء میں تو تُرک کُردوں نے اردوان کے ساتھ، جو تب وزیرِ اعظم تھے، معاہدے کے نتیجے میں مرکزی دھارے کی سیاست کا حصّہ بننا قبول کیا تھا اور انتخابات میں 10فی صد نشستیں حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہوئے تھے۔ لہٰذا، اب انہیں مذاکرات سے کون روک رہا ہے۔

امریکا اور یورپ نے تُرکی کے اس اقدام پر ناراضی کا اظہار کیا ہے اور ٹرمپ نے اس پر معاشی پابندیاں عاید کرنے کی دھمکی بھی دی ہے، جو قطعاً دُرست نہیں۔ یاد رہے کہ امریکا اور یورپ کے اسی رویّے ہی نے تُرکی کو رُوس سے قُربت اختیار کرنے پر مجبور کیا اور اب وہ اس سے میزائل ڈیفینس سسٹم تک خریدنے پر غور کر رہا ہے۔ یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ تُرکی، شام کے شمال مشرقی حصّے پر حملے فوراً روک دے۔ نیز، وہ اس علاقے میں شامی مہاجرین کی آبادکاری میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔ شامی تارکینِ وطن کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے یہ بیان نہایت مضحکہ خیز لگتا ہے اور اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یورپ میں پناہ لینے کی کوشش کرنے والے شامی مہاجرین کو اپنے مُلک میں بسانا کوئی بہت بڑا جُرم ہے۔

اسے انسانی حقوق کے چیمپئن یعنی مغرب کی دوغلی پالیسی کہا جا سکتا ہے۔ پھر مشرقِ وسطیٰ کو اس حال تک پہنچانے میں یورپ کا تاریخی کردار کون فراموش کر سکتا ہے۔ عربوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا، خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ، بیت المقدس پر فوجی قبضہ، سائیکس پائیکوٹ معاہدے کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کا بٹوارہ، اسرائیل کا قیام، اسلامی ممالک میں فوجی حُکم رانوں کو مسلّط کرکے اُن کی مدد کرنا، عراقی جنگیں اور عرب اسپرنگ وغیرہ اس خطّے میں مغرب کی مداخلت کی واضح مثالیں ہیں۔

اس وقت تُرکی ہی وہ واحد مُلک ہے کہ جو مسئلہ شام سے پوری طرح واقف ہے، کیوں کہ شام سے اس کی سرحد ملتی ہے۔ پھر تُرکی ہی میں سب سے زیادہ شامی مہاجرین مقیم ہیں۔ یورپ کا حصّہ اور نیٹو کا اتحادی ہونے کے ناتے تُرکی نے مغربی ممالک کے سامنے شامی مہاجرین کا مسئلہ رکھا، لیکن اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ لہٰذا، اب خود اسے یہ مسئلہ حل کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

ویسے بھی اگر شام میں رُوس اور ایران کی فوجی مداخلت قابلِ قبول ہو سکتی ہے، تو پھر تُرکی کی کیوں نہیں، حالاں کہ وہ شام کی سرحدپر واقع ہے۔ تُرکی کی فوجی کارروائی سے شام کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں شامی شہری اپنے مُلک میں آباد ہوں گے اور یورپ کو بھی مہاجرین کے سیلاب سے نجات مل جائے گی۔ یورپ بھی یہ جانتا ہے کہ تُرکی کے اس اقدام سے اُسے فائدہ پہنچے گا، لیکن دکھاوے کے لیے واویلا کر رہا ہے اور درحقیقت سیف یا بفر زون میں شامی مہاجرین کو بسانے کا حل تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔

نیز، ماہرین اس اَمر کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ایسے ہی مزیدعلاقے قائم کر کے دیگر ممالک میں پناہ لینے والے شامی باشندوں کو اُن میں بسایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں تُرکی کے اس فیصلے سے بہتری کی امید رکھنی چاہیے۔