حکومت اپوزیشن مذاکرات کے تقاضے

October 20, 2019

وزیراعظم کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے سات رکنی کمیٹی کا قیام ملک کی سخت کشیدہ سیاسی فضا میں اگرچہ ایک خوش آئند اور مثبت فیصلہ ہے تاہم ملک و قوم کے حق میں یہ اقدام اسی صورت میں مفید ثابت ہوگا جب اسے کامیاب بنانے کے مطلوبہ تقاضے بھی کھلے دل سے پورے کیے جائیں۔ پاکستانی قوم مقبوضہ کشمیر کی مسلسل بگڑتی صورتحال، بھارتی جارحیت کے خدشات، افغانستان کے مسئلے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے انتباہات اور معاشی انحطاط کی شکل میں جن سنگین چیلنجوں سے دوچار ہے، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قومی یکجہتی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں آج سیاسی کشیدگی جس انتہا پر ہے اور اس سے جنم لینے والی تفریق نے قوم کو جس بری طر ح تقسیم کر رکھا ہے، ہماری تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان افہام و تفہیم کی وہ کم سے کم سطح بھی موجودہ دور کے پہلے سال کی تقریباً پوری مدت میں عنقا رہی ہے جو پارلیمنٹ میں قانون سازی اور ملکی معاملات کو ہموار طریقے سے چلانے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے جبکہ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے پر مبنی آزادی مارچ کے نام سے ملک بھر میں بظاہر ایک نہایت ہنگامہ خیز سرگرمی شروع ہونے والی ہے۔ سیاسی کشیدگی کی یہ فضا گزشتہ عام انتخابات کے فوراً بعد ہی سے قائم ہے کیونکہ انتخابی عمل پر ملک بھر میں بہت بڑے پیمانے پر بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا تھا اور بیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں اگرچہ جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم کرلیا گیا مگر پھر بھی سیاسی مفاہمت کا کوئی ماحول تشکیل نہیں پا سکا۔ اس کی اصل وجہ حکومت کے ناقدین کے مطابق احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو بلاشبہ رائے دہندگان نے کرپشن کے خاتمے کا مینڈٹ دیا تھا جس کا تقاضا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت قومی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا بلاامتیاز احتساب کیا جاتا مگر عملاً پچھلے ایک سال سے محض اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا احتساب جاری ہے اور ان کے متعدد رہنما فی الوقت محض الزامات کی بنیاد پر زیر حراست ہیں جبکہ حکومتی سطح پر پہلے دن سے انہیں چور ڈاکو جیسے القابات سے نواز کر یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے جیسے وہ ثابت شدہ مجرم ہوں حالانکہ انصاف کا مسلمہ تقاضا ہے کہ قانون کی عدالت میں الزام ثابت ہونے تک کسی بھی شخص کو مجرم قرار نہ دیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد حکومتی شخصیات جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، احتسابی ادارے کی گرفت سے عملاً آزاد ہیں۔ عوامی سطح پر حکومت سے عدم اطمینان کے دیگر اسباب میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ سرفہرست ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ملک کی پوری سیاسی قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے لیکن محاذ آرائی کی فضا نے اسے ناممکن بنا رکھا ہے اور بات حکومت گرانے کے لیے مارچ اور دھرنے تک جاپہنچی ہے؛ تاہم غنیمت ہے کہ کم ازکم اب وزیراعظم نے اپوزیشن سے بات چیت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے کمیٹی قائم کر دی ہے جس کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف حکومتی ارکان اپوزیشن قیادت کے لیے اپنے لب و لہجے کو بہتر بنائیں اور دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور بات چیت سے پہلے وزیراعظم کے استعفے جیسے انتہائی مطالبے کو واپس لیتے ہوئے مذاکرات کی پیشکش قبول کرے کیونکہ دوسری صورت میں جمہوری تسلسل کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جبکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔