بلوچستان، اک حسیں خواب، ایک بھیانک حقیقت

February 20, 2013

پاکستان کی جوہری طاقت کے تجربے کے مرکز، اپنے سنگلاخ اور وسیع تر ویرانوں، بے اندازہ پوشیدہ اور آشکار معدنیات اور عالمی جیو پولیٹیکل و جیو اکنومکل پوزیشن کا حامل شہرہ آفاق بلوچستان، ابتدا سے ہی خوشحال پاکستان کا اک حسین خواب بنا رہا، اور آج بھی ہے۔ اب اسے اک بھیانک خواب بنا کر روشن پاکستان کی راہیں روکی جا رہی ہیں۔ انسانیت کے خلاف اس جرم کبیر میں شیطانی ذہن کے کون کونسے عالمی اور مقامی مجرم ملوث ہیں؟ اس سوال کی ”عین درست جواب تک پہنچ“ پوری پاکستانی قوم کے لئے بڑے چیلنجز میں سے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ تمام مجرموں اور ان کے جرائم کی تفصیلات سے جس سے نبرد آزما ہونے کے بعد آگاہی کے بعد بڑا مسئلہ بلوچستان سے سائینٹفک انداز میں نمٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی استحکام اور اس کے روشن مستقبل کے لئے یہ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس پر مزید سوچنے اور بحث کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے مختلف البنیاد عالمی دشمنوں نے اس کے خلاف ایک انوکھی اور خطرناک ترین جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور کراچی اس کے سب سے بڑے محاذ ہیں۔ اس مسلسل جنگ کی طرح یہ بھی واضح ہے کہ بیرونی دشمنان پاکستان، مقامی معاونت حاصل کرنے میں بہت کامیاب ہیں۔ یہ مقامی معاونین شاید خود بھی نہیں جانتے کہ ہم کس کے لئے کتنا اور کس بے دردی سے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر انہیں اس کا کسی حد تک بھی صحیح اندازہ ہے، اس کے باوجود وہ اس شیطانی کھیل میں ملوث ہیں تو وہ بیرونی دشمنوں سے بڑھ کر پاکستان کے دشمن ہیں۔ محتاط اندازہ تو یہ ہے کہ ملک کے بیرونی دشمنوں کے مقامی معاونین انجانے اور غیر انجانے طور پر منقسم ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد ایک ہو، لیکن اصل میں ان کے اہداف مختلف ہوں گے کسی گروپ کو تو بیرونی سرمایہ مل رہا ہو گا اور وہ فقط اس کے لئے پاکستانیوں کے گلے کاٹنے پر آمادہ رہ کر، اس قبیح جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ کچھ اور بڑے خلوص کے ساتھ کسی ”مقدم“ ہدف کے لئے انتہائی بزدلانہ طرز کی اس دہشت گردی پر آمادہ لگتے ہیں، تو کوئی جذبات کی اس کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہو کہ دشمن اس کے جواں اور تازہ خوں کو انتہائی شاطرانہ طریقے سے استعمال کر رہا ہو۔ دشمن جتنے اور جس طرح کے بھی ہیں حد درجہ بزدل، مردہ دل اور تاریک ذہن ہیں۔ اگر یہ مسلمان ہیں تو اسلام سے کوسوں دور رہ کر بلا امتیاز عورتوں اور بچوں کا قتل کرتے ہیں اور معصوم شہریوں کو آن واحد میں موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ اگر وہ کسی لحاظ سے منقسم ہیں، تو وہ اپنے ”مجرموں“ کا بدلہ معصوم شہریوں سے لے رہے ہیں۔ مسلکی اختلاف پر مسلمانوں کا کوئی بھی مسلک اتنی سفاکی کا مظاہرہ تو نہیں کر سکتا جس طرح کہ بلوچستان میں آباد پُر امن ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ظلم وجور کیا جا رہا ہے۔ یہ تو لگتا ہے کہ کوئی غیر مسلم پاکستان دشمن طاقت ہر حال میں ملک گیر شیعہ سنی فساد کرانے کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ جیسا کہ پُر امن ہزارہ کمیونٹی کے معصوم شہریوں بشمول عورتوں بچوں کو، کبھی بم دھماکے کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اور کبھی صوبے کی ویران گزر گاہوں میں مسافروں کو لی جاتی بسوں کو روک کر فائرنگ کر کے کیا انسان پھر اتنا پیچھے جا رہا ہے، جب صدیوں قبل انسان جسمانی اور اسلحے کی طاقت پر انسانوں کو قتل کر دیتے تھے اور اس کی منظم شکل اپنی سرزمین سے دور ہلاکو، چنگیز اور سکندر اعظم کے حملے رہے، جن میں شہروں میں قتل عام ہوتا بستیوں کی بستیاں برباد کر دی جاتیں اور کھیت کھلیان اجاڑ دیئے جاتے۔ یوں شیطانیت اور معصومیت (یا بے بس) کے اس اذیت ناک توازن نے خالق کائنات کی بنائی اس حسیں دنیا کو جہنم بنائے رکھا لیکن حق پھرحق ہے، جس نے بالآخر بڑھنا ہوتا ہے، جب یہ بڑھتا ہے تبھی ظلم مٹتا ہے۔ سو، وقت کے فرعون، چنگیز اور ہلاکو و سکندر، انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل کو روک سکے نہ اپنا غلبہ برقرار رکھ سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کو گاجر مولی سمجھ کر بے دردی سے کاٹنا پیٹنا اور عورتوں اور بچوں کو قتل کر کے کوئی بھی مقصد حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟
اس کی وجہ مردہ ضمیر، تاریک ذہن اور جہالت ہے، خواہ یہ بیرونی طاقتوں کے دماغ سے ہو یا مقامی معاونین کی دہشت گردی سے۔ اپنے کو دشمنانِ پاکستان کے پاس گروی رکھ کر ہو یا جہالت میں ڈوب کر عورتوں، بچوں اور بازار میں معصوم خریداروں اور روزی کماتے دکانداروں کا خفیہ بم دھماکوں سے قتل عام یہ بزدلی ہے، بزدلی ہے، بزدلی۔ لیکن لگتا ہے، ارتقاء اپنا زور دکھانے کو ہے، وہ دن دور نہیں جب بلوچستان کی بھیانک موجودہ حقیقت، دم توڑے گی اور بلوچستان خطے کے عظیم اقتصادی مرکز میں تبدیل ہونے کا افسانہ حقیقت میں بدل جائے گا۔ گوادر پورٹ کو چین کے زیر انتظام لانے کا فیصلہ اس طرف پہلا قدم ہے۔ یہ پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم کے اس خواب کی تعبیر کا آغاز ہے، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ بلوچستان میں معدنیات کے پوشیدہ خزانے مستقبل میں خوشحال اور مستحکم پاکستان کی بنیاد بنیں گے۔ سرمایہ کاری کی بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے جیولوجیکل سرویز کے بعد اس امر کی تصدیق کر چکی ہیں کہ پاکستان کا یہ وسیع و عریض صوبہ قیمتی معدنیات اور گیس کے ذخائر سے بھرا پڑا ہے۔ ایران سے بذریعہ بلوچستان گیس پائپ لائن بچھانے کا پاک ایران معاہدہ بھی عملاً اپنے پہلے مرحلے کی تکمیل کر چکا ہے۔ اس منصوبے کے بھگوڑے بھارت کو اب اس پُر تکلیف اور اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ نہ ہی چین اور پاکستان کے مشترکہ (شیئرڈ) ویژن پر کسی بیرونی طاقت کی تکلیف اور تشویش کی کوئی گنجائش بنتی ہے۔ اس ویژن کے مطابق پاکستان میں بلوچستان سے ایک اقتصادی انقلاب برپا ہو گا جو پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان کی خوشحالی کا سبب بنے گا اور صدیوں سے بلوچیوں کے ساتھ مظالم کا مداوا ہو گا۔ بھارت کو اگر امریکہ کی بحر ہند میں ڈیگو گارشیا کے جزائر میں عسکری موجودگی سے کوئی تشویش نہیں تو اسے ایک پُر امن اور کروڑ ہا غرباء کو خوشحالی کے امکانات پیدا ہونیپر کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے ساتھ امریکہ سے جوہری توانائی کے حصول کو اپنے قومی مفاد کے لئے حق بجانب سمجھتا ہے تو ایران سے بذریعہ پائپ لائن پاکستان کے گیس درآمد کرنے پر امریکہ کی مخالفت اور سفارتی دباؤ کا ہرگز کوئی جواز نہیں بنتا۔ واضح رہے کہ بحر ہند میں امریکہ کا ایئر بیس ڈیگو گورشیا کے جن جزائر میں قائم ہے، وہ ماریشیس کو واپس لوٹانے کی بجائے افغانستان پر سوویت جارحیت کے دوران امریکہ کے حوالے کر دیئے جہاں اس نے 25 ارب ڈالر کے اخراجات سے ایئر بیس قائم اور ریپڈ ڈپلائمنٹ فورس تعینات کی۔ چین اور پاکستان کا گوادر ایئر پورٹ کو وسعت اور جدت دینے کا مقصد تو خطے میں ایک اقتصادی انقلاب برپا کرنا ہے، جس میں دونوں ہمسایہ اور گہرے دوست ممالک کے انتہائی جائز اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ اگر اس پُر امن دو طرفہ معاہدے سے بلوچستان کے عظیم اقتصادی مرکز بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے تو اس سے پورے خطے میں ہر طرح کی دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا۔ پاکستان اور چین نے مل کر یہ سوال اٹھانا ہے کہ افغانستان اور سنٹرل ایشیا، سے لے کر گوادر تک ایک پُرامن اور خوشحال خطہ تشکیل دے کر دہشت گردی کا مکمل اور سائینٹفک خاتمہ کرنے میں دنیا اسے کیا تعاون دے سکتی ہے؟ جیسا کہ اس نے افغانستان سے سوویت جارحیت کے خاتمے کے لئے اس پورے خطے کو حد درجہ عسکری خطے میں تبدیل کرنے میں اپنا بھر پور تعاون دیا تھا جو سوویت جارحیت کے خاتمے لیکن آنے والے وقت میں دہشت گردی کی وجہ بھی بنا۔