کراچی دنیا کا چوتھا سستا ترین شہر

March 28, 2016

برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کراچی کو دنیا کا چوتھا سستا ترین اور سنگاپور کو دنیا کا مہنگا ترین شہر قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں سستے اور مہنگے ترین شہروں کی درجہ بندی اِن شہروں میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں، مکان و ٹرانسپورٹ کرایوں، یوٹیلیٹی بلز، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں پر آنے والے اخراجات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ اس حوالے سے برطانوی جریدے نے دنیا کے 133 ممالک میں ’’دی ورلڈ وائیڈ کوسٹ آف لیونگ 2016ء‘‘ سروے کیا جس میں دنیا کے مختلف شہروں میں 140سے 160مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ کیا گیا۔ سروے ٹیم کے ممبر جان کوپسٹوک نے اپنی رپورٹ میں 2015ء کو سب سے زیادہ غیر مستحکم سال قرار دیا جس میں ڈالر کے مقابلے میں مختلف ممالک کی مقامی کرنسی، تیل اور کموڈیٹی کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی۔ 2016ء کی رپورٹ میں افریقی ملک زمبیا کے شہر لوساکا کو دنیا کا سستا ترین اور کراچی کو دنیا کا چوتھا سستا ترین شہر قرار دیا گیا جبکہ اس سال چار بھارتی شہر چنائی، بنگلور، ممبئی اور نئی دہلی بھی دنیا کے 10 سرفہرست سستے ترین شہروں میں شامل ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں پہلے نمبر پر سنگاپور، دوسرے نمبر پر زیورخ، تیسرے نمبر پر ہانگ کانگ، چوتھے نمبر پر جنیوا اور پیرس، پانچویں نمبر پر لندن، چھٹے نمبر پر ڈنمارک، ساتویں نمبر پر سیول اور آٹھویں نمبر پر لاس اینجلس رہا۔ واضح رہے کہ کراچی اس سے قبل کئی مرتبہ دنیا کا سستا ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل کرچکا ہے۔ 2009ء میں برطانوی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے اپنی رپورٹ میں کراچی کو دنیا کا سستا ترین شہر اور 2013ء میں کراچی، ممبئی مشترکہ طور پر دنیا کے سستے ترین شہر قرار دیئے گئے تھے جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2013ء کی سالانہ ’’انفلیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ میں کراچی کو پاکستان کا سستا ترین اور اسلام آباد کو مہنگا ترین شہر قرار دیا تھا جہاں ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
برطانوی انٹیلی جنس یونٹ ہر سال دنیا کے 133 ممالک کا معاشی سروے کرتا ہے جس میں خوراک، کپڑے، گھریلو سامان، مکان و ٹرانسپورٹ کرایوں، یوٹیلیٹی بلز، تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولتوں اور تفریح پر خرچ ہونے والے اخراجات کا امریکی شہر نیویارک میں اشیاء کی قیمتوں سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف شہروں کے سستا یا مہنگا ہونے کی درجہ بندی ان ممالک کی معاشی صورتحال میں اتار چڑھائو کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں ان ممالک کی مقامی کرنسی کی قدر بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے جس کے گرنے سے امپورٹ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جو مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ممبئی میں ایک کلو روٹی کی قیمت 0.91 ڈالر اور دہلی میں 1.05 ڈالر ہے تو سنگاپور میں ایک کلو روٹی کی قیمت 3.36 ڈالر وصول کی جاتی ہے۔ میں نے اِنہی بنیادوں پر دنیا کے مختلف ممالک میں 14 اشیائے خورد و نوش (فوڈ پرائزز) دودھ، روٹی، چاول، انڈے، مکھن، گائے، مرغی کا گوشت، سیب، کیلا، کینو، ٹماٹر، آلو، پیاز اور سلاد کا موازنہ کیا تو یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں عالمی معیار کے مطابق ان اشیائے خورد و نوش پر ماہانہ 10,263 روپے، بھارت میں 6,901 روپے، بنگلہ دیش میں 10,154 روپے، افغانستان میں 14,000روپے، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں 898 درہم (27,000 روپے)، برطانیہ میں 185 پونڈ (28,000 روپے) اور امریکہ میں 334 ڈالر (33,400 روپے) خرچ ہوتے ہیں جبکہ ایشیائی معیار کے مطابق ان اشیائے خورد و نوش پر پاکستان میں ماہانہ 7,628 روپے، بھارت میں 5,095 روپے، بنگلہ دیش میں 6,839 روپے، افغانستان میں 10,500 روپے، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں 681 درہم (21,000روپے)، برطانیہ میں 145 پونڈ (20 ہزار روپے) اور امریکہ میں 263 ڈالر (27,000 روپے) خرچ ہوتے ہیں۔ موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اِن اشیائے خورد و نوش پر بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں زیادہ خرچ ہوتے ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک کے مقابلے میں ان اشیائے خوردونوش پر ہمارے اخراجات انتہائی کم ہیں جس کی وجہ پاکستان میں کم فی کس آمدنی ہے۔
قارئین! دنیا کے مختلف ممالک کی فی کس سالانہ آمدنی (PCI) کا موازنہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مضبوط معیشت اور وسائل کی وجہ سے دنیا کی فی کس سالانہ آمدنی میں نہایت فرق موجود ہے۔ ترقی یافتہ امیر ممالک میں فی کس آمدنی نہایت زیادہ جبکہ پسماندہ اور معاشی بدحال ممالک (LDC) میں فی کس آمدنی نہایت کم ہے جس سے ان ممالک کے معیار زندگی میں واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ فی کس سالانہ آمدنی 1,37,162 ڈالر قطر کی ہے، دوسرے نمبر پر لگسمبرگ 97,639 ڈالر، تیسرے پر سنگاپور 83,066 ڈالر، چوتھے پر برونائی 79,890 ڈالر، پانچویں پر کویت 70,686ڈالر، چھٹے پر ناروے 67,166ڈالر، ساتویں پر متحدہ عرب امارات 66,347 ڈالر، آٹھویں پر سین مرینو 60,887، نویں پر سوئٹزرلینڈ 58,149ڈالر، دسویں پر ہانگ کانگ 55,097 ڈالر، گیارہویں پر امریکہ 54,370 اور بارہویں نمبر پر سعودی عرب 52,311 ڈالر ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی 4,749 ڈالر، بھارت کی 5,808 ڈالر اور بنگلہ دیش کی 3,391 ڈالر ہے جبکہ کچھ افریقی ممالک کی فی کس سالانہ آمدنی 1000 ڈالر سے بھی کم ہے جس کی جھلک ان ممالک کے لوگوں کے معیار زندگی میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
پاکستان اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی سالانہ 18 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر، مزدور کی اجرت میں مسلسل اضافے اور کارپوریٹ اداروں کی پرکشش تنخواہوں و مراعات کی وجہ سے پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران متوسط طبقے کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے لیکن پاکستان کا دنیا کے مختلف ممالک سے موازنہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اب بھی لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں دہشت گردی اور ماضی میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے جس سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے مگر امید کی جارہی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں 46 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری، آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی سے ملک میں امن و امان اور معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ کراچی پاکستان کا صنعتی و معاشی حب ہے، یہاں ملک کے دیگر شہروں سے لوگ روزگار کی غرض سے آتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
کراچی میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کم ہیں۔ یہ شہر وفاقی حکومت کو مجموعی ریونیو کا 60% سے زائد فراہم کرتا ہے جبکہ اس پورٹ سٹی کی دونوں بندرگاہوں سے سالانہ 40 ارب ڈالر کی امپورٹ اور 25 ارب ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر کراچی کو دنیا کا چوتھا سستا ترین شہر قرار دینا باعث اعزاز ہے جس پر میں کراچی کے شہریوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔