یادوں کے جھروکوں سے ’کنور مہندر سنگھ بیدی جب کراچی آئے‘

November 07, 2019

اختر بلوچ

کنور مہندر سنگھ بید ی کا شمار برصغیرہندو پاک کی ان شخصیات میں ہوتا ہے ،جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد اس کی جغرافیائی حدود کو تو ذہنی طور پر قبو ل کر لیا تھا لیکن ہجرت کے بعد پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں سے ان کی دوستی اور محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔وہ آل انڈیا اردو ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ہونے کے علاوہ ہند پاک پریم سبھاکے بانی بھی تھے۔یوں تو ان کی پیدائش پاکستان کے شہر ساہیوال سابقہ منٹگمڑی میں ہوئی تھی اور وہاں ان کے آباؤ و اجداد کا ایک مزار بھی ہے۔انہوں نے اپنی سوانح حیات ‘‘یادوں کا جشن’’ہندوستان میں لکھی لیکن اس کی اشاعت پاکستان میں ہوئی۔ان کی کتاب کا انتساب‘‘ہندو پاک دوستی کے نام’’ہے۔

کنور صاحب یو ں تو سرکاری افسر رہے لیکن ہندوستان و پاکستان میں ان کی وجہ شہرت بحثیتِ شاعر کے ہے۔کراچی کے باسیوں سے بھی ان کا دیرینہ تعلق رہا ۔اپنی کتاب‘‘یادوں کے جشن’’ میں کراچی کے پہلے دورے کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ،’’پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد میں نے پاکستان کا پہلا دورہ ۱۹۵۶ ؁میں کیااور کراچی گیا۔دہلی اوراس کے گردونواح کے اکثروبیشتر مسلمان کراچی جا کر آباد ہوگئے تھے۔دہلی سے ہمارے ہوائی جہازنے آٹھ گھنٹے تا خیر سے پرواز کی ۔

بارش کی وجہ سے دُھند تھی اس لیے وقت پر پرواز نہ کر سکا۔جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مُجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔کراچی میں پورے سال میں آٹھ،دس انچ بارش ہوتی ہے،اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک اسقبال کیا۔

میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھامگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا میں پانچ،چھ دن وہاں ٹھہرا ۔اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

دعوتوں کا یہ عالم تھاکہ صُبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ناشتے کے بعددو،دو تین،تین جگہ کافی ،پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں ،جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے ،جہاں بھی میں جاتا دس،بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں ۔اچھا خاصا جلوس سادکھائی دیتا تھا۔

اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے،جس شا م مجھے کرا چی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جا نے کی درخواست کی یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جا تے تھے اور میرے بیدا ر ہو نے سے پہلے ہی آجا تے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے توا ضع کرتے میں ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں ،جس روز مجھے وہا ں سے دہلی واپس آنا تھا وہ حسب دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔

آئی۔ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔میں سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔وہ میرا کراچی میں آخری دن تھااورمجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھامگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا ۔چنانچہ تیار ہو کرمیں اس کے ساتھ ہو لیااور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا ۔اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

میں دروازے پر رک گیا ۔لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گامیں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے ۔میں نے شُکریہ ادا کیا۔

کچھ دیر رُکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔دُعا کیجئے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔مُجھے یہ سُن کر اپنے گُناہوں کا احساس ہوااور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گُناہ گا ر آدمی ہوں ،مگر وہ بضد رہا۔آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازی عمر اور خوشحالی کی دُعا مانگی ۔

اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھااور اُن سے رُخصت لی۔میرے دل پار اس واقعے کا بہت دیر تک اثررہا۔اب جب بھی یاد آتا ہے تو اُس شخض کی فراخدلی ،اعتماد ،صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اُ س کا ایڈریس نہ لے سکاورنہ واپس آکر اُسے شُکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

کراچی میں تقسیم سے قبل سکھ اچھی خاصی تعداد میں آباد تھے لیکن تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کی وجہ سے انہیں کراچی چھوڑنا پڑا لیکن ان فسادات کے دوران بھی مذہبی رواداری برقرار تھی۔ مسلمان جس طرح اپنی مذہبی کتابوں کا احترام کرتے تھے، اسی طرح دیگر مذاہب کی کتابوں کا بھی احترام کرتے تھے، اس کی ایک واضح مثال کے بارے میں بیدی صاحب رقم طراز ہیں،’’میں تمام دن اپنے احباب اور میز بانوں سے ملتا رہا اور اُن کا شکریہ ادا کرتا رہا۔آخرکار شام ہو ئی اور ہم سب ہوائی اڈے پر پہنچے۔الوداع کہنے والوں کی کافی بھیڑ تھی۔بہت سے حضرات میرے لیے تحفے لائے تھے۔

میں نے ہر چند انکار کیاکہ میرے پاس پہلے ہی کافی سامان ہے ،ہوائی جہاز والے اعتراض کریں گے لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔سارا سامان اور تحا ئف بھی اُنھوں نے خودہی بُک کرا دیے ۔جب ہوا ئی جہاز چلنے والا تھا تو دو آدمی آئے ،جن میں ایک جوان تھا اور ایک ادھیڑ عمرکا۔اُنھوں نے اپنے سررُومال سے ڈھانپے ہوے تھے اور بڑ ے ا دب سے ہاتھوں میں کُچھ اُٹھاے ہوئے تھے۔کہنے لگے،’’ آپ کے لیے ایک تحفہ لائے ہیں اور ہمیں اُمید ہے کہ آپ اسے قبول کرنے سے انکار نہیں کریں گے۔‘‘میں نے پوچھا تو اُنھوں نے بتایاکہ ہمارے ہاتھوں میں گُرو گرنتھ صاحب ہے۔

ہمارے پڑوس میں ایک سردار صاحب رہتے تھے۔جب اُن کا گھر نذر آتش ہونے لگااور غُنڈوں نے گھر لُوٹنا شروع کیا تو ہم نے ان کے گھر جا کرگرنتھ صاحب اپنے قبضے میں لے لیااور اپنے گھر لے آئے ۔آج آپ کی یہ امانت آپ کے حوالے کر رہے ہیں۔یہ سُن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔میں نے انھیں گلے سے لگایااور دعا دی کہ خداوند دو عالم آپ کو اس کا اجر دے گا۔

اُن سے رُخصت ہو ہی رہا تھا کہ پنجاب موٹر ورکشاپ کے مالک بشیر صاحب آپہنچے اور فرمانے لگے ایک خاص تحفہ لایا ہوں۔یہ تحفہ نہایت ہی خوبصورت ڈبوں میں بند کیا ہوا ایک ٹی سیٹ تھا۔جس میں دودھ دانی،شکردانی،چائے دانی،پیالے پلییٹں سب کے سب موٹر گاڑیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے اور خوبصورت پہیوں پر چلتے تھے۔بشیر صاحب نے یہ تحفہ بھی خود ہی بُک کرادیا۔جب میں چلنے لگا تو مُجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے اس ٹی سیٹ میں جتنے بھی پہیے ہیں وہ سونے کے ہیں اور میں نے آپ کو اس سے پہلے اس لیے آگاہ نہیں کیا کہ آپ یہ سن کر میرا تحفہ قبول کرنے سے انکار نہ کر دیں۔

جب میں واپس بھارت آیا میں نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا۔چنانچہ ایک زرگر کو بلوا کر پہہیے کھلوائے تو وہ واقعی سونے کے تھے۔میں نے اس بات کا ذکر چیف منسٹرکیروں صاحب سے کیا کہ اب مُجھے کیا کرنا چاہیے تو وہ فرمانے لگے کہ کسی دوست نے آپ کو تحفہ دیا ہے اور پھر سونے کی مقدار بھی زیادہ نہیں ہے آپ اسے قبول کر لیجئے۔یہ کوئی قانون شکنی نہیں ہے۔‘‘

۱۹۸۱میں بیدی صاحب دوسری مرتبہ کراچی تشریف لائے تو کراچی کو ایک بدلا ہوا شہر پایا۔ پچیس برس کے وقفے کے بعد جب بیدی صاحب کی کراچی آمد ہوئی تو وہ اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں،’’ان برسوں میں بہت کُچھ بدل گیا ۔۱۹۵۶ ؁ میں کراچی چھ سات لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔کراچی پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا ہے اورایک بہت بڑی بندرگاہ بھی ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر بھی شمار کیا جاتاہے۔۲۵ برس کے بعد میں نے کراچی میں بہت تبدیلی پائی، جہاں کبھی ویران علاقے اور جنگل ہواکرتے تھے۔اب اس جگہ بارونق بستیاں آباد ہیں۔

دُور دُور تک پھیلی وسیع سڑکوں اور کئی کئی منزلہ خوبصورت عمارتوں نے کراچی کو ایک حسین شہر بنادیا ہے۔بہت سے دوست اللہ کو پیارے ہو گئے۔کتنے ہم عمر ساتھی بُڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئے اور ایک نئی پود ابھر کر سامنے آچکی ہے۔پھر بھی میرے سینکڑوں دوست احباب اب تک موجود ہیں اور اس قیام کے دوران کئی نئے دوست بنے۔

تقریبا ًایک ہفتے کراچی میں ٹھہرا۔دوستوں اور اہل کراچی کی کرم فرمائیاں اس قدر ہیں کہ سات دن لمحوں کی طرح گزر گئے صُبح کا ناشتہ،دوپہر کا کھانا،شام کی چائے،رات کا کھانااور کھانے کے بعد ادبی نشستیں یا استقبالیے۔اتنی دعوتیں ہوئیں کہ برسوں تک یاد رہیں گی۔

بیدی صاحب نے آخری مرتبہ کراچی کا دور ہ اردو کے عظیم شاعر جوش ملیح آبادی کی یاد میں برپا ہونے والے مشاعرے میں شرکت کرنے کے لئے کیا تھااس میں شرکت کا احوال وہ کچھ یوں بیا ن کرتے ہیں،اب یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یا تو مُسلسل ۲۵برس تک کراچی نہ دیکھ سکااور یا پھرچندماہ کے دوران میں ہی دو مرتبہ کراچی ہو آیا۔

ماہ اپریل۱۹۸۲ ؁میں تیسری مرتبہ کراچی گیا،حالانکہ صرف دو روز ہی میراقیام رہا مگر یہ دو دن بھی بے حد مصروفیت میں گزرے اس مرتبہ میں محض تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھابلکہ میرے محبوب دوست جوش ملیح آبادی کے انتقال کے بعد کراچی کی ایک تنظیم سادات امروہہ نے جوش مرحوم کی یاد میں ایک تعزیتی عظیم الشان مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا اور اس میں شرکت کے لیے مجھے بھی دعوت دی گئی تھی۔

میں نے زندگی میں بڑے بڑے مشاعرے دیکھے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اپنی تو عمر ہی مشاعروں میں کٹی ہے مگر یاد جوش ایسا عظیم الشان مشاعرہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔کراچی کے لوگوں میں جس قدر خلوص ملتا ہے اس کی مثال کم ہی دیکھنے میں آتی ہے چونکہ مجھے اگلے روز بنگلور میں ایک مشاعرے میں شرکت کرنی تھی اس لئے کراچی سے مشاعرہ کے دوسرے روز بھارت واپس لوٹ آیا۔‘‘

نوٹ: اس مضمون میں شامل تمام معلومات ان کی ۱۹۸۳ میں مطبوعہ کتاب ‘‘یادوں کا جشن’’ سے لی گئی ہیں۔