Sidhu is in Great Danger

November 14, 2019

بیس اکتوبر 1963میں امرتسر میں پیدا ہونے والے نوجوت سنگھ سدھو بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں بہت سی وجوہات کی بنا پر خوب شہرت رکھتے ہیں۔

بطور کرکٹر و کمنٹیٹر اپنا مقام بنانے والے سدھو نے اپنی حسِ مزاح اور خوبصورت شاعری کے سبب بھارتی ٹی وی انڈسٹری کے ذریعے عالمی سطح پر بھی اپنا نام پیدا کیا۔

نوجوت سنگھ سدھو سکھ مذہب سے بھرپور لگائو اور دوستی اور دشمنی میں ایک جذباتی شخص کے طور پر مشہور ہیں۔ کرکٹ اور شوبز کے بعد سدھو نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔

2004میں بھارتی جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بھارتی پنجاب میں ایک دہائی تک رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے، کئی اہم وزارتوں میں بطور وزیر بھی خدمات انجام دیں تاہم پارٹی قیادت سے شدید اختلافات کے سبب 2017میں بی جے پی سے مستعفی ہو کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کئی بار عمران خان سے اپنی دوستی پر فخر کا اظہار بھی کرچکے ہیں،

پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بھی محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔ خاص طور پر جب وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری تقریب میں بھارت کے کئی اہم سیاستدانوں، کھلاڑیوں اور فنکاروں کو شرکت کی دعوت دی گئی تو اس وقت پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہونے کے سبب تمام اہم شخصیات نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی تھی تاہم نوجوت سنگھ سدھو بھارت کی واحد شخصیت تھے جو تمام مخالفتوں کے باوجود عمران خان کی تقریب حلف برداری میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ پاکستان اور عمران خان کے لیے کھل کر اپنی حمایت کا اظہار بھی کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی وقت سے بھارت کی انتہا پسند قوتیں، وفاقی حکومت اور بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور ان کے زیرِ سایہ خفیہ ایجنسیاں سدھو کے خلاف گھیرا تنگ کرتی نظر آرہی ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت پاک بھارت دوستی کے بھارت میں سب سے بڑے داعی نوجوت سنگھ سدھو سخت خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور ان خطرات میں بھی سدھو مسلسل پاک بھارت دوستی، خطے کے غریب عوام کی خوشحالی اور انسانی حقوق کی بات کررہے ہیں جس سے ان کے خلاف اشتعال بڑھتا جارہا ہے اور ان خطرات سے نکالنے میں ان کی جماعت گانگریس بھی کھل کر سدھو کی اس طرح حمایت نہیں کر پارہی جس طرح کی جانی چاہئے کیونکہ سدھو کی جانب سے عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں پاکستان آکر تقریب میں شرکت کرنا اور پاکستان کے آرمی چیف سے گلے لگنے کے بعد کانگریس جماعت میں بھی ان کی مخالفت میں اضافہ ہوا تاہم سدھو نے پاکستان کے لیے اپنی پالیسی میں کسی طرح کی تبدیلی پیدا نہیں کی۔

ان کی خواہش پر وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سکھوں کے مقدس ترین مقام کرتارپور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں سکھ قوم کو ایک بڑی خبر ملی تاہم بھارتی انتہا پسند حکومت اسے پاکستان کی بھارت کے خلاف ایک چال ہی تصور کرتی رہی جبکہ نوجوت سنگھ سدھو پاکستان کے پُر خلوص اقدام کو سکھ قوم کے لیے ایک بڑی کامیابی تصور کرتے ہوئے امن کے راستے پر چل رہے ہیں۔

پاکستانی آرمی چیف سے بغل گیر ہونے کے بعد سدھو پر کبھی پاکستانی ایجنٹ تو کبھی دیش دروہی ہونے کے الزامات عائد ہورہے ہیں۔ سیاست میں ان کی جماعت کے وزیراعلیٰ نے حالیہ انتخابات میں کانگریس کی پنجاب میں شکست کی وجہ بھی سدھو کی پاکستانی آرمی چیف سے بغل گیری کو قرار دے دیا ہے۔

کبھی ان پر وزارت میں کرپشن کے الزامات عائد ہورہے ہیں تو کبھی پنجاب میں ہونے والے ریل حادثے کی ذمہ داری ان پر اور ان کی اہلیہ پر عائد کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ غرض ہر گناہ کا الزام اس وقت سدھو کے سر تھونپنے کی کوشش ہورہی ہے۔

ڈر اس بات کا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب بھارت کے معروف اداکار اوم پوری نے پاک بھارت دوستی کی بات کی، پاکستانی فلم میں کام کیا اور پاکستان میں لگائے جانے والے جھوٹے دہشت گردی کے الزامات پر بھارتی میڈیا میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو بھارتی قومی سلامتی کے مشیر نے پہلے انھیں وارننگ دی اور جب اوم پوری نے پاک بھارت دوستی کی بات جاری رکھی تو انھیں بھی پاکستانی ایجنٹ قرار دےدیا جس کے کچھ دن بعد وہ اپنی رہائش گاہ پر پُر اسرار موت کا شکار ہو گئے۔

بعد ازاں بھارتی فلم انڈسٹری نے پاکستان سے دوستی کے لیے اپنی زبانیں بند کرلی ہیں اور اب بھارتی کرکٹ، شوبز اور سیاست کی معروف شخصیت نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو رد کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم پر فرانس سے جہازوں کی خریداری پر کروڑوں کی کرپشن کے الزام عائد کردیئے ہیں اور کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے ان پر جھوٹا الزام عائد کررہے ہیں۔

سدھو کی زندگی اس وقت سخت خطرے میں نظر آرہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ کرتار پور راہداری پاک بھارت کے عوام کے لیے امن کی راہداری ثابت ہو، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی سب سے طاقتور آواز نوجوت سنگھ سدھو بھارتی حکومت کے شر سے محفوظ رہیں اور دونوں ممالک کے درمیان امن و استحکام کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)