جنگی جرائم، برطانوی فوج کے خلاف انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پہلی انویسٹی گیشن کھلنے کا امکان

November 19, 2019

لندن (پی اے) انٹرنیشنل کرمنل کورٹ بی بی سی کے پروگرام میں مبینہ جنگی جرائم (وار کرائمز) کے انکشافات کے بعد برطانوی ملٹری کے حوالے سے پہلی انویسٹی گیشن اوپن کر سکتی ہے۔ بی بی سی کے پروگرام پینوراما میں یہ شواہد سامنے لائے گئے تھے کہ ریاست نے برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں کو چھپایا ہے۔ آئی سی سی (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) نے کہا کہ اس نے ان نتائج کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے۔ منسٹری آف ڈیفنس (ایم او ڈی) کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے شواہد نہیں ہیں۔ وزارت دفاع نے کہا کہ اس نے آئی سی سی کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے اور عدالت کی جانب سے مزید مداخلت کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ کسی بھی برطانوی نیشنل کے خلاف جنگی جرائم کے حوالے سے اس کی یہ پہلی باقاعدہ تحقیقات ہوگی۔ آئی سی سی آفس فار پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ آزادانہ طور پر پینوراما کی فائنڈنگز کا جائزہ لے گا جو آیا برطانیہ کے خلاف تاریخی انویسٹی گیشن کھولنے کے حوالے سے اس کے فیصلے میں انتہائی متعلقہ ہو سکتا ہے۔ عدالت نے پہلے یہ کہا تھا کہ ایسے مصدقہ شواہد ہیں کہ برطانوی فوجیوں نے عراق میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور زیادہ تر کیسز میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور بصرہ میں ہوٹل ورکر بہا موسیٰ کا کیس ہے جو 2003 میں برطانوی فوجیوں کے تشدد اور ٹارچر کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اس قتل کی پبلک انکوائری ہوئی تھی اور یہ جنگی جرائم میں برطانوی فوجی کو واحد سزا ہوئی تھی۔ پینوراما نے سنڈے ٹائمز کے ساتھ کام کرتے ہوئے برطانوی حراست میں مبینہ ہلاکتوں کی نئی معلومات کا انکشاف کیا ہے۔ عراق پر قبضہ کے دوران برطانوی فوجیوں کے مبینہ جنگی جرائم کےارتکاب کے الزامات کی انویسٹی گیشن کرنے والی عراق ہسٹورک ایلیگیشن ٹیم (آئی ایچ اے ٹی) کا کہنا ہے کہ انہیں موسیٰ کے قتل سے تین ماہ قبل بصرہ میں برطانوی فوج کے ایک اڈے پر بڑے پیمانے پر زیادتی کے واقعات ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ یہ جرائم کیمپ اسٹیفن میں ہوئے۔ جس کو رائل رجمنٹ آف سکاٹ لینڈ کی بلیک واچ تھرڈ بٹالین چلاتی تھی۔ آئی ایچ اے ٹی نے مئی 2003 میں ایک ہفتے کے اندر ہلاک ہونے والے دو افراد کے بارے میں بھی انویسٹی گیشنز کی تھیں۔ منسٹری آف ڈیفنس نے تسلیم کیا کہ یہ دونوں افراد بے گناہ اور معصوم شہری تھے۔ آئی ایچ اے ٹی نے برطانوی فوجیوں اور آرمی سٹاف کے بیانات کے ذریعے معلومات جمع کی تھیں، جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ ان افراد کو لاشیں ملنے سے پہلے کس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس موسم گرما میں برٹش ملٹری پراسیکیوٹرز نے فیصلہ کیا تھا کہ ان دو اموات کے حوالے سے کسی کے خلاف پراسیکیوشن نہیں کی جائے گی۔ جب ان کو پینوراما کے شواہد دکھائے گئے تو سابق ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشنز لارڈ میکڈونلڈ نے کہا کہ ان کےخیال میں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کسی فوجی کو چارج نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں ان کی اموات سے پہلے ان پر زبردست جسمانی تشدد کیا گیا تھا۔ اتوار کو ڈیفنس سیکرٹری ڈومینک راب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تمام الزامات، جن میں شواہد موجود تھے، کا جائزہ لیا گیا تھا۔ منسٹری آف ڈیفنس کا کہنا ہے کہ ملٹری آپریشنز قانون کے مطابق کیے جاتے ہیں اور الزامات کی وسیع تر تحقیقات کی گئی ہیں۔ ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انویسٹی گیشنز اور قانونی چارہ جوئی کے فیصلے کرنے سے منسٹری آف ڈیفنس بالکل آزاد ہے اس میں بیرونی نگرانی اور قانونی ایڈوائس شامل ہوتی ہے۔ کیسز پر انتہائی غور کے بعد انڈی پینڈنٹ سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی نے قانونی چارہ جوئی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بی بی سی کے دعوے سروس پولیس اور سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کو بھیج دیئے گئے ہیں جو الزامات پر غور کرنے کیلئے اوپن ہے۔ یہ نئے الزامات جنگی جرائم کی 2 انکوائریز عراق ہسٹورک ایلیگیشن ٹیم (آئی ایچ اے ٹی) اور آپریشن نارتھ مور سے سامنے آئے جو 2017 میں کسی پروسیکیوشن کے بغیر ختم ہوگئی تھیں۔