تنخواہ داری اور خود مختاری

November 19, 2019

بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم جس شخص کو تنخواہ پر ملازم رکھتے ہیں، اس شخص کو کارکردگی دکھانے میں تھوڑی بہت ڈھیل ضرورتاً دیتے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ میری بات سن کر مسکرا رہے ہیں۔ آپ کے قریب بیٹھے ہوئے کچھ لوگ منہ پر ہاتھ رکھ کر آئی ہوئی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آپ کی دلفریب مسکراہٹ اور آپ کے ہم نشینوں کو بے ساختہ آئی ہوئی ہنسی کا مطلب سمجھ سکتا ہوں۔ سوچنا صرف سیانوں کا استحقاق نہیں ہے۔ چرند پرند اور ہم بونگے بھی سوچ سکتے ہیں۔ اگر چرند پرند اور بونگوں کے سوچنے پر قدغن لگی ہوتی تو پھر ہم چرند پرند اور بونگے سوچنے جیسی غلطی کبھی نہیں کرتے۔ ہم بھیجے کا اور کوئی مناسب استعمال کرتے۔ ہم پاکستانی بھیجا فرائی بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ تمہید میں نے آپ کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے نہیں لکھی ہے۔ یہ تمہید میں نے آپ کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ دور کرنے کے لئے لکھی ہے۔ آپ خندہ پیشانی سے غور کیجئے کہ ہم بونگوں نے کس قدر باریک بینی سے تنخواہ لینے والے ڈرائیور کے بارے میں سوچا ہے۔ مانا کہ ڈرائیور آپ نے اچھی خاصی تنخواہ پر رکھا ہے مگر ڈرائیور پر آپ اپنا مکمل اختیار نہیں چلا سکتے۔ لازمی طور پر آپ کو اسے ایک حد تک خود مختار چھوڑنا ہوگا۔ ڈرائیور کو یہ کہہ کر آپ گاڑی میں سوار ہوتے ہیں کہ آپ کو اسمبلی بلڈنگ جانا ہے۔ آپ اسے تنخواہ دیتے ہیں لہٰذا آپ جس جگہ چاہیں اسے لے جا سکتے ہیں۔ چاکیواڑہ، رنگیواڑہ، بھیم پورہ، ٹھوکر گلی، آپ جہاں چاہیں اسے لے جا سکتے ہیں۔ یہ آپ کا اختیار ہے۔ وہ آپ کا ملازم ہے، انکار نہیں کر سکتا مگر جیسے ہی آپ گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور گاڑی روانہ ہوتی ہے، آپ کے اختیار محدود ہو جاتے ہیں اور وہیں سے ڈرائیور کی خود مختاری شروع ہوتی ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے یہ ڈائیور کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس گاڑی کو اوور ٹیک Overtakeکرے۔ غلط سمت wrong side سے آتی ہوئی گاڑی سے بچنے کے لئے کس قسم کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ یہ اہم فیصلے ڈرائیور کو کرنے ہوتے ہیں۔ آپ کو نہیں۔ گیند کے پیچھے دوڑتے ہوئے ایک لڑکا اچانک سڑک پر آ جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کا تنخواہ دار ڈرائیور آپ سے پوچھ کر بریک نہیں لگائے گا۔ وہ خود بخود اپنی سوجھ بوجھ کے تحت بریک لگا کر گاڑی روک دے گا۔ اگر آپ نے اپنے ڈرائیور کو تنخواہ کے قبضہ قدرت میں قابو کر رکھا ہے، تو پھر کچھ یوں ہو سکتا ہے: آپ کی گاڑی رواں دواں ہے، آپ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے محو خواب ہیں، ڈرائیور کو اچانک راستے کے بیچوں بیچ گہرا گڑھا دکھائی دیتا ہے، آپ نے چونکہ ڈرائیور کو رتی برابر خود مختاری نہیں دی ہے لہٰذا وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ وہ آپ سے پوچھے گا کہ سر، سڑک کے بیچوں بیچ مجھے ایک گہرا گڑھا دکھائی دے رہا ہے۔ میں تیزی سے گڑھے کی طرف بڑھتا جا رہا ہوں۔ آپ مجھے حکم دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ دائیں طرف یا پھر بائیں طرف گاڑی موڑ دوں؟ یا، بریک لگا کر گاڑی روک دوں؟ جب تک آپ موقع محل کو سمجھیں اور ڈرائیور کو ہدایات دیں، تب تک آپ گہرے گڑھے میں گر چکے ہوں گے، مع اپنی گاڑی اور اپنے تنخواہ بردار ڈرائیور کے۔

ایک اور مثال سن لیجئے۔ ایک بینکر نے اپنی کوٹھی کی حفاظت کے لئے دو چار جنگجو قسم کے چوکیدار ملازم رکھے۔ بینکر نے چوکیداروں پر واضح کر دیا تھا کہ جب تک وہ یعنی بینکر کارروائی کا حکم نہ دے وہ اپنے طور پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے۔ کوئی کارروائی کرنے سے پہلے چوکیداروں کے لئے بینکر صاحب سے اجازت لینا ضروری تھا۔ ایک چار پانچ ڈاکو آپ کی کوٹھی میں داخل ہوگئے ہیں۔ بیگم صاحبہ اور بچوں کو انہوں نے باندھ کر ایک طرف بٹھا دیا ہے اور گھر کا صفایا کررہے ہیں۔

’’تو اور تیرے ساتھی کیا کر رہے تھے؟‘‘ بینکر نے چلاتے ہوئے کہا۔ ’’تماشا دیکھ رہے تھے؟‘‘

چوکیدار نے عرض کیا ’’سر، آپ کی اجازت کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے‘‘۔

بینکر بغیر کچھ کہے مع چوکیدار کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ گھر جاکر کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اور بچے رسیوں سے بندھے ہوئے ایک کمرے میں بند تھے۔ ان کے ہونٹوں پر ٹیپ لگی ہوئی تھی۔ ڈاکو گھر کا صفایا کرکے جاچکے تھے۔ حکم کے منتظر باقی تین چوکیدار گم صم بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان کو تل بھر خود مختاری نہیں دی ہوئی تھی۔ ایسا تو ہونا ہی تھا سرکار۔ جس کے پیر کے نیچے ایکسیلریٹر اور بریک ہوتا ہے، حتمی فیصلہ اسی کا ہوتا ہے، پھر وہ چاہے آپ کا تنخواہ دار ہی کیوں نہ ہو۔