یخ بستہ فضاؤں میں سیاسی گہماگہمی…!

November 22, 2019

ڈیٹ لائن لندن…آصف ڈار
برطانیہ کی یخ بستہ فضائوں میں ان دنوں عام انتخابات کی حدت تو موجود ہے ہی مگر وہ ہ ہلڑبازی اور گہما گہمی نہیں ہے جو پاکستان کے انتخابات میں ہوا کرتی ہے، البتہ برطانیہ کے بھی ان علاقوں میں جہاں پاکستانی اور ایشیائی امیدوار اور مختلف پارٹیوں کے امیدوار بن کر یا پھر آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں وہاں پاکستانی ماحول ضرور نظر آتا ہے۔ اس ماحول کو بننے میں شاید ابھی مزید وقت لگے گا؟ تاہم سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن آمد کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے متوالوں کا جوش و خروش دیدنی نظر آتا ہے اور ان کی بڑی تعداد شدید سردی کے باوجود ایونیزفیلڈ کی رہائش گاہ کے باہر پہنچی اور اپنے قائد کو پاکستان سے بخریت برطانیہ پہنچنے پر خوش آمدید کہا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کی برطانیہ کی قیادت اور پاکستان سے آنے والے مرکزی لیڈروں نے بھی وزیراعظم عمران خان کے جارحانہ انداز کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا؟ جس کی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہے کہ سب کو میاں محمد نواز شریف کی صحت کی فکر لاحق ہے جو واقعی بہت شدید بیمار ہیں اور ان کی بیماریوں کا پتہ چلانے کے لئے مختلف ٹیسٹ کئے جارہے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابھی پاکستان میں میاں نواز شریف پر قائم مقدمات سے ان کی گلوخلاصی نہیں ہوئی، نہ ہی مریم نواز کو برطانیہ آنے کی اجازت ملی ہے۔ جبکہ دوسری طرف رانا ثناءاللہ کی ضمانت کیلئے بھی ہلچل شروع ہوچکی ہے؟ خواجہ برادران کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی برکات سے مسلم لیگ (ن) کو فیض مل رہا ہے اور اس کی مشکلات میں کافی کمی آرہی ہے کیونکہ مولانا نے دھرنے کے دوران ’’قوم‘‘ کیلئے خوب دعائیں بھی کرائی تھیں؟ دعائیں تو کشمیریوں کیلئے بھی کرائی گئیں مگر ان میں اثر آنے میں شاید ابھی وقت لگے گا، ایسا لگتا ہے کہ مولانا
کے دھرنے کا فیض اور دعائیں پیپلزپارٹی کے لیڈروں تک نہیں پہنچ رہی ہیں جو مسلسل قیدوبند کی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کو تو اب شاید وزیراعظم عمران خان کے اس غصے اور جارحانہ انداز سے بھی ڈر لگ رہا ہوگا جو نوازشریف کے ملک سے باہر جانے اور رہائی کی وجہ سے انہوں نے اختیار کیا ہے؟ وزیراعظم کسی زخمی شیر کی طرح بپھرے ہوئے ہیں، وہ ہر روز کئی بار کہتے ہیں کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘، مگر انہیں شاید سب سے زیادہ غصہ اس بات پر آرہا ہے کہ انہوں نے ’’رحم کھا کر‘‘ نواز شریف باہر جانے کی اجازت کیوں دی یا پھر یہ کہ وہ اپنے ’’رحم‘‘ کے ہاتھوں اس قدر مجھور کیوں ہوئے؟ انہیں اس بات پر بھی غصہ آرہا ہے کہ انہیں مستقبل میں مزید ’’رحم‘‘ کھانا پڑے گا؟ کیونکہ مولانا نے اپنی تحریک ختم نہیں کی بلکہ وہ سڑکوں پر ہیں اور آج کل ان کی ’’دعائوں‘‘ میں کافی اثر بھی ہے! ان دعائوں کے اثر کے نتیجے میں عمران خان کی فرسٹریشن بھی بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے اور فرسٹریشن کے نتیجے میں وہ اپنے جارحانہ انداز کی وجہ سے کوئی بھی غلطی کرسکتے ہیں؟ جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے موجودہ اور آنے والے چیف جسٹس کو ’’مشورے‘‘ دیئے، وہ شاید جسٹس کھوسہ کو پسند نہیں آئے اور پھر نیب کے چیئرمین نے جس انداز سے طاقتوروں کا احتساب کرنے کی بھی بات کی ہے، اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ مستقبل میں کیا کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ امپائر کی انگلی بھی اٹھ سکتی ہے اور حالات کسی اور رخ بھی جاسکتے ہیں؟ حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے رہنمائوں کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کیلئے شرائط کی مخالفت اور بعض بیانات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی عمران خان کا جارحانہ انداز کوئی زیادہ پسند نہیں آ رہا؟ پاکستان کا شاید ہی کوئی صحافی، دانشور یا قومی لیڈر ایسا ہو جس نے عمران خان کو وزیراعظم بننے کے بعد یہ مشورہ نہ دیا ہو کہ وہ کنٹینر سے نیچے اتریں اور جارحانہ انداز کو ختم کرکے جمہوری انداز میں حکومت چلائیں، عوام کو ریلیف دیں کیونکہ جب تک وہ ڈلیور نہیں کریں گے، اس وقت تک ان کے اقتدار کو خطرہ رہے گا۔ مگر عمران خان شاید یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان کے دھرنے کے انداز نے انہیں مقبولیت دی تھی، اسلئے یہی ٹھیک ہے، مگر یہ ٹھیک نظر نہیں آ رہا؟۔