الیکشن کمیشن:نیا بحران

November 25, 2019

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کا یہ انتباہ کہ نئے چیف الیکشن کمشنر کا بروقت تقرر نہ ہوا تو 7دسمبر کو الیکشن کمیشن غیر فعال ہونے کا خطرہ ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی بحران سے قبل الیکشن کمیشن کی خالی نشستوں کو پرُ کرلیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی مجموعی تعداد 5 ہے، سندھ اور بلوچستان سے 2ممبران کی نشستیں حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق نہ ہوپانے کی وجہ سے تقریباً ایک سال سے خالی پڑی ہیں۔ انتخابات ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن کم از کم اپنے 3ارکان کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے۔ 6دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ارکانِ مطلوبہ تعداد کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کر سکے گا۔ اگر نئے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو خالی نشستوں پر بروقت ممبران کی تقرری ممکن نہ ہوئی تو 7دسمبرکو الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائے گا اور ضمنی و بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کرا سکے گا ۔ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف باہمی مشاورت سے 3نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجواتے ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے پر 45روز کے اندر پُر کیا جانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان سے ممبران کی تعیناتی کے لیے صدرِ مملکت نے سندھ سے خالد محمود صدیقی اور بلوچستان سے منیر احمد کاکڑ کا تقرر کیا تھا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان ناموں کو مسترد کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے رابطہ کریں، الیکشن کمیشن 2 ریٹائرڈ ممبران کا عہدہ پُر کرنے کے لیے وزارتِ پارلیمانی امور کو چار خطوط لکھ چکا ہے لیکن تاحال حکومت کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیںآیا۔ یہ ساری صورتحال ایک نئے بحران کی غمازی کر رہی ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت فی الفور آئینی طریقہ کار اپناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی خالی نشستوں کو جلد از جلد پُر کرے تاکہ کوئی نیا آئینی و سیاسی بحران پیدا نہ ہو۔