طلبا میں سوشل میڈیا کے زائد استعمال کے منفی نتائج

December 01, 2019

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال طالب علموں میں نشے کی طرح بڑھ رہا ہے، جس سے نہ صرف نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ یہ لکھنے کی مشق سے دور کمپوزنگ پر انحصار کرنے والے طالب علموں کی تعلیمی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے۔

خود سے دماغ لڑانے کے بجائے ہر چیز میںگوگل کو جادو کی چھڑی بنایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے تحقیقی کاموں میں زوال آیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیاہے کہ سوشل میڈیا سے حد سے زیادہ وارفتگی کو نہیں روکا گیا تو ہم عالمی طور پر مفلوج نسل کو پروان چڑھائیں گے۔ گھنٹوں انسٹاگرام پر ا سکرول کرنے سے دماغ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، ہمیں اپنے روز و شب متوازن انداز میں گزارنے ہوں گے۔

فیس بک پر زیادہ وقت صرف کرنا فیصلہ سازی کو متاثر کرتا ہے، ساتھ ہی ہمارے طرزِ عمل میں منفی رجحانات خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی شائع ہونے والی اس نئی تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈار میشی کہتے ہیں، ’’یہ نشہ اور جنون جسے ہم لت کہتے ہیں، افسردگی اور اضطراب سے کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے زائد استعمال سے خراب رویے، کارکردگی اور فیصلہ سازی کے مابین ایک گہرا ربط پایا گیا، جسے ’ناپائیدار فیصلہ کن اثرات‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

اس کےمنفی اثرات دماغ میں رچ بس کر اچھے بھلے آدمی کو بدزبانی اور غصے و بےچینی میں مبتلا کردیتے ہیں اور اسے اپنے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ کرۂ ارض پر لگ بھگ ایک تہائی انسان سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں، ان میں بیشتر بہت زیادہ خرابی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہماری تحقیق سے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے توازن قائم کرنے کی ترغیب ملے گی‘‘۔

بڑھتے ہوئےنفسیاتی عوارض

مختلف مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کےزیادہ استعمال کو مجبوری قرار دے کراُسی بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو نشے کے عادی افراد کرتے ہیں ۔ وہ اکثر سوشل میڈیا کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند رہتے اور اسے استعمال کرنے کی بے قابو خواہش میںمبتلا ہوتے ہیں۔ اس لت کی علامات مزاج، ادراک، جسمانی و جذباتی ردعمل، باہمی اور نفسیاتی مسائل میں ظاہر ہوسکتی ہیں ۔

سوشل میڈیا کے استعمال اور ذہنی صحت سے متعلق کئی دیگر مطالعات سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک جیسے سوشل میڈیاکا طویل عرصے سے استعمال ذہنی صحت کے مسائل مثلاً تناؤ ، اضطراب اور افسردگی میں اضافے اور طویل مدتی فلاح و بہبود کے کاموں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ وسطی سربیا اور امریکا میں ہائی اسکول کے طلبا کے مابین سوشل میڈیا پر گزرا وقت افسردہ علامات سے بھرپور رہا۔

ساتھ ہی تعلیمی مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کے استعمال سے مجموعی گریڈ پوائنٹ کم آئے، بالخصوص ویڈیو گیمنگ کے لئے سوشل میڈیا کے استعمال اور سوشل میڈیا ملٹی ٹاسکنگ سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہوئی۔ امریکن لیبارٹری میں کیے گئے تجربات کےمطابق ٹیکسٹنگ، ای میل، میسنجراور فیس بک پر ملٹی ٹاسکنگ کے ذریعے سیکھنے سے کارکردگی کم ہوئی جبکہ ٹوئٹر کی چینی شکل ویبو کے استعمال سے چینی طالب علموں میں معلومات کی تفہیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

منفی رویہ اور سوچنے کی صلاحیت میں کمی

تحقیقی جریدے جرنل آف بیہیوریل ایڈکشنز میں ڈار میشی کی ٹیم کےشائع کردہ نتائج اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان میں سوشل میڈیا اور خطرناک رویے کے مابین تعلق کو تلاش کیا گیا ہے۔ محققین نے سوشل میڈیا کے عادی افراد کے نفسیاتی انحصار کو دماغی کیمیا سے تشبیہ دی ہے ، جو کبھی کبھی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے میں ناکام اور منفی نتائج کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ مطالعے کے سروے میں71شرکاء نے حصہ لیا، جس میں فیس بک پر لوگوں کے نفسیاتی انحصار کی پیمائش کی گئی، پلیٹ فارم سےان کی دلچسپی کے بارے میں سوالات پوچھے گئے اور فیس بک کی ملازمت یا تعلیم پر پڑنے والے اثرات کا پتہ چلایا گیا۔

بعد ازاں تاش کے پتوں کے انتخاب کے کھیل کے ذریعےشرکاء کی فیصلہ سازی کا جائزہ لیا گیا۔ انھیں کمپیوٹر پر کارڈ کے چار ورچوئل ڈیک پیش کرتے ہوئے بتایاگیا کہ ہر ڈیک میں کارڈ موجود ہیں،جن پر انعام اور جرمانہ دونوں عائد ہیں۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ کھیل میں شریک افراد نےبری کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ ان کا مکمل انحصار سوشل میڈیا پر تھا، ان لوگوں نےاپنے دماغ سے سوچنے کی قطعی زحمت نہ کی، وہ منشیات کے عادی افراد کی طرح لکیرکے فقیر بنے رہے۔

ڈار میشی کے مطابق ’’دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے، اس استعمال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوشل میڈیا خواتین و حضرات کے لیے زبردست فوائد رکھتا ہے ، لیکن اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ لوگ خود کوسوشل میڈیا سے دورنہیں رکھ پاتے۔ ہمیں اس جنون کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ طے کرسکیں کہ سوشل میڈیاکا ضرورت سے زیادہ استعمال نشے کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں‘‘۔