فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا خاتمہ کیسے؟

February 26, 2013

ملک میں جاری فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا مسئلہ جتنی سنجیدہ اور مخلصانہ توجہ کا طالب ہے، اس سے اتنی ہی مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے۔ ہر چند ہفتوں کے بعد کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجاتا ہے مگر اس کی روک تھام کی کوئی نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں آتی۔ جنوری میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے بم دھماکے کا نشانہ بنائے جانے کے بعد احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت رخصت ہوئی اور گورنر راج نافذ ہوا مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ اس کے محض سوا مہینے بعد مزید 89 زندگیوں کی بھینٹ لینے والی ہولناک دہشت گردی کی دوسری واردات کے بعد گورنر بلوچستان نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری پوری کردی کی اُن کا دل تو اِس سانحہ پر خون کے آنسو رورہا ہے مگر وہ کیا کریں کہ یا تو ریاستی ایجنسیاں مجرموں کا پتہ لگانے کی اہلیت نہیں رکھتیں یا پھر یہ لوگ خود بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ خود ہی دہشت گردی کا شکار نہ ہوجائیں جبکہ وفاقی وزیر داخلہ اس بات پرفخر کرتے نہیں تھکتے کہ دہشت گردی کی ہر واردات سے وہ قوم کو پیشگی خبردار کر دیتے ہیں ان واقعات پر جمہوری روایات کے مطابق مستعفی ہونا تو درکنار کسی اظہار ندامت کی بھی کوئی ضرورت انہیں محسوس نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے معاملے پر بھی ازخود کارروائی شروع کردی ہے۔ ان کا احساس فرض قابل ستائش ہے،پوری قوم ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہے لیکن حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اگر سب کچھ سپریم کورٹ ہی کو کرنا ہے تو حکومت کے اتنے بڑے تام جھام کی آخر کیا ضرورت ہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے خاتمے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے تو اس کیلئے ذمہ داروں کی قانونی گرفت کیساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی فکر کی اصلاح ضروری ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی جس قسم سے ہمیں سابقہ درپیش ہے‘ اسکے پیچھے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے سیاسی و معاشی مفادات اور جغرافیائی عزائم یقینا ہیں مگر فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث عناصر جس بنا پر خود اپنی جانوں کو داوٴ پر لگا کر ہلاکت خیز کارروائیوں کیلئے تیار ہوجاتے ہیں وہ واجب القتل قرار دینے کے فتوے، اور ان پر عملدرآمد کو عین تقاضائے ایمان ٹھہرانے والی جذباتی تقریریں اور تحریریں ہیں ۔ انکی بنا پر معتقدین کو کامل یقین ہو جاتا ہے کہ یہ جنت کا شارٹ کٹ ہے۔خودکش حملوں اور دوسرے طریقوں سے قتل و غارت گری کرنیوالے سادہ دل مسلمان مسلکی اختلافات کے معاملے میں ایسے علماء کے نقطہ نظر سے پوری طرح متاثر ہو کر ہی متشددانہ کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو مخالف نقطہ نظر رکھنے والے پر بات چیت اور دلائل کے ذریعے اپنی حد تک اپنے موقف کی صداقت واضح کرنے کی کوشش اور پھر ”وما علینا الا البلاغ “ کہہ کر ماننے نہ ماننے کا اختیار مخاطب کو دینے کے بجائے اپنی رائے سے اتفاق نہ کرنے والے کے قتل کا فتویٰ صادر کردینا بہتر سمجھتے ہیں۔جب تک یہ سوچ درست نہیں ہوگی مسلکی اختلاف پر موت کی نیند سلادینے والے جاں بازوں کی فوج تیار ہوتی رہیگی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا سلسلہ ، عمل اور ردعمل کے لامتناہی چین ری ایکشن کی شکل میں چلتا رہے گا۔ اسلئے اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان فتووں کا غلط ہونا ثابت کردیا جائے تو وہ بنیاد ہی ختم ہوجائے گی جسے عالمی اور علاقائی طاقتیں ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو“ کے نسخے پر عمل کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی خاطر ہمیں لڑانے کے لئے اسی طرح استعمال کرنا چاہتی ہیں جس طرح اسے عراق میں استعمال کیا گیا اور اب شام میں کیا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جن علماء نے دوسرے مسلک کو ماننے والوں کے واجب القتل ہونے کے یہ فتوے دے رکھے ہیں، انہی کے مسلک کے مستند اور ممتاز علمائے کرام ان فتووں پر اپنے موقف کا اظہار کریں۔ اگر یہ فتوے قرآن و سنت کی درست ترجمانی ہیں تب تو بات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں تو جب تک کوئی ایک فرقہ دوسرے فرقے کو صفحہٴ ہستی سے مٹا نہ دے، قتل و خون کا یہ سلسلہ تھم ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت کسی بھی طور مسئلے کا حل نہیں ہوسکتی۔ امت کے دوبڑے مسالک کے اختلافات نئے نہیں ہیں۔ ان کا آغاز اسلامی تاریخ کی پہلی صدی ہی میں ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود مسلم دنیا میں دونوں مسالک کے وابستگان ساتھ ساتھ رہتے بستے چلے آرہے ہیں۔ مسلم فرماں رواوٴں کی حکومتوں میں دونوں مسالک کے افراد شامل رہے ہیں۔ خود پاکستان کے قیام میں برصغیر کے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر نے حصہ لیا اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد دینی قیادت کی جانب سے نفاذ اسلام کے مطالبے پر جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ آخر کس فرقے کا اسلام اور کون سی فقہ پاکستان میں نافذ کی جائے تو1951ء میں تمام مکاتب فکر کے31 ممتازعلمائے کرام نے متفقہ طور پر اسلامی دستور کی تیاری کیلئے 22 نکات مرتب کرکے اس پروپیگنڈے کا ہمیشہ کیلئے سدباب کردیا کہ اس دور میں اسلام کا نفاذ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کی وجہ سے ناممکن ہے۔ یہ کارنامہ جن حضرات نے انجام دیا ان میں سنی یعنی دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء کی صف میں اگر مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا داوٴد غزنوی، ،مولانا عبدالحامد بدیوانی قادری اور مولانا یوسف بنوری جیسے جید علمائے کرام شامل تھے تو اہل تشیع کی نمائندگی مفتی کفایت حسین مجتہد اور مفتی جعفر حسین مجتہد جیسے نامور اور معتبر علماء نے کی تھی اور ابھی حالیہ برسوں میں ملی یکجہتی کونسل اور پھر متحدہ مجلس عمل کی شکل میں سنی شیعہ ‘ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث سب اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ حقیقت قابل غور ہے کہ حرم مکہ اور مسجد نبوی میں اہل تشیع اور اہل سنت سب ساتھ ساتھ حاضری دیتے ہیں، حج کے تمام مناسک ہر سال دنیا بھر سے جمع ہونیوالے سنی اور شیعہ شانہ بشانہ ادا کرتے ہیں۔اسکے بعد ایک مسلک کی جانب سے دوسرے کے خلاف واجب القتل ہونے کے فتوے آخر کس طرح درست ہوسکتے ہیں۔ اختلافات پر جس طرح 14 سو سال کے دوران بالعموم تحمل کی روش اختیار کی گئی ہے، اسی طرح آج بھی کی جانی چاہئے اور اپنے نقطہ نظر کا اظہار تحریر و تقریر کے پُرامن طریقوں سے شائستگی کے حدود میں رہتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں مکاتب فکر کے محترم و مستند اور اعتدال پسند علماء انتہاپسندانہ طرز فکر عمل کی اصلاح کے لئے متحد ہوں اور واضح کریں کہ کسی بھی مسلک کے وابستگان کو واجب القتل قرار دینے کے فتوے اسلام کی درست ترجمانی نہیں ہیں اور جو لوگ ان پر عمل کرکے بے قصور لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں وہ اپنے لئے جنت کا نہیں جہن کا سودا کررہے ہیں۔