شیطان بھی حیران ہے

December 02, 2019

میں اپنے بچپن سے سنتا آرہا ہوں کہ پاکستانی قوم ایک ترقی پذیرقوم ہے۔ یہاں کے لوگ آگے بڑھنا نہیں جانتے، یہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھ پر بڑے خوشگوار راز "افشا ــ"ہوتے چلے گئے۔

ایک دن میں اسکول سے باہر نکلا تو دیکھاکہ ایک معذور شخص دھوپ میں بیٹھااللہ کے نام پر مانگ رہا تھا۔ مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اپنے لنچ کے بچے ہوئے پیسے اس کے حوالے کردیئے ۔

والد کو آنے میں دیرہوگئی اور اسکول خالی ہوگیا۔ جب میں بالکل آخر میں باہر نکلاتو کیا دیکھتاہوں کہ وہ فقیرآرام سے اٹھا،اپنے کپڑے جھاڑے ،ہاتھ پاؤں سیدھے کئے ، پیسے تھیلے میں جمع کئے اور چلاگیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا۔۔۔۔۔۔ ذرابڑے ہوئے تو بازار سے سودا خریدنے کا شوق سوار ہوا۔ ایک کلو گوشت بڑی چھان پھٹک کر لائے۔

والدہ نے پکانے کے بعد کان کندھے تک کھینچ دیئے کہ پریشر والا پانی سے بھرا گوشت کا میں کیا کروں؟ پکنے کے بعد اب آدھے سے بھی کم رہ گیاہے۔ اتنا دھوکا گوشت میں پانی میں۔۔۔۔میں سوچنےلگا۔۔۔۔۔ پھر پتاچلا کہ کالی مرچ میں پپیتے کے بیچ، پسی مرچ میں لکڑی کا برادہ، دال چاول میں کنکر، چائے کی پتی میں پپیتے کے بیچ پیس کر ملاوٹ کی جاتی ہے۔

مصالحوں کی جگہ لکڑی کو رنگ کرکے ثابت گرم مصالحوںکی شکل دی جاتی ہے۔دودھ میں پانی کے علاوہ کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ سٹرک پہ ایک ایکسیڈنٹ دیکھ کر میں رک گیا لوگ بڑی تعداد میں جمع تھے۔

اپنی قوم پر رشک آیا واقعی ہمارے ہاں انسانیت ابھی تک زندہ ہے۔ قریب پہنچاکو کیا دیکھتاہوں کہ زخموں سے چور شخص مددکا طلبگار ہے۔ مگر لوگ موبائل فون، کریڈٹ کارڈز اور کرنسی کے طالب۔

ایمبولنس آنے سے پہلے پہلے مطلوبہ سامان حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں۔آہ پھر میں سوچنے لگا! مسجد خدا کا گھر اور مسافروں کاٹھکانا قرار دیا گیا تھا۔ مگر آج وہاں لوٹے زنجیر میں بندھے ہوئےہیں، چپلیں سجدے کی جگہ اور مسجدوں میں تالا ہے۔۔۔۔۔۔۔ گھر میں پانی نہ آنے پر واٹربورڈ جانے کا اتفاق ہوا۔

بڑی لمبی قطار کے بعد باری آئی۔ میں سوچنے لگا کہ جب شہر میں پانی نہیں ہے تو ٹینکر میں کیسے اور کہاں سے پانی آتا ہے۔ قریب ہی کھڑے دوعملے کے لوگ آپس میں بات کررہے تھے ۔ ارے بڑا پیسا ہے اس بزنس میں مہینے بھر پانی صرف 500 کاپڑتا ہے۔سپلائی رو ک دو ۔

دودن کے استعمال کے لیے ایک ٹینکر یہی لوگ 2 سے 3 ہزار روپے میں لیکرجاتے ہیں۔۔۔۔اورپھر میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔ علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا۔ پہلے مالی حالت کا اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ مہنگی دوائیں خریدسکتے ہیں کہ نہیں ۔کیونکہ شفااسی میں ہے۔

باہر نکل کر پتاچلا کہ جس کیمسٹ کے پاس وہ دوا تھی ۔وہ ، ڈاکٹر، دوا کی کمپنی کا مالک آپس میں بزنس پارٹنر ہیں۔ بہت پیسا ہے اس بزنس میں اور پھر میں سوچنے لگا کہ اچھا مسیحاکا مطلب یہ ہی ہوتا ہے؟ ٹیکنالوجی کاتو ذکر ہی نہیں کیا؟ ری سائیکل کا لفظ تو آپ نے سنا ہوگا۔ اس کا سب سے زیادہ استعمال شعبہ طب میں کیا جاتا ہے۔

ڈسپوزبل سرنج، ڈرپس، حتیٰ کہ Expiry دواؤں کو ری سائیکل کیا جاتا ہے، دواؤںپہ نئی تاریخ ڈال کر اور باقی سب کو نئی شکل دے کر۔ کیا اس ٹیکنالوجی کا استعمال کسی اور ترقی یافتہ ملک میں بھی ہوتاہوگا ؟دل کے مریضوں کے لیےlow Price stant تیار کئے جاتے ہیں۔

یعنی جو چیز انسانی زندگی بچانے کی ہے اسے بھی منافع بخش کاروبار بناتے ہوئے غیرمعیاری انداز میں پیداکیا جاتا ہے۔کیااس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماراسوچنے اور عمل کرنے کا انداز کسی طور بھی نیا نہیں ہے۔کیا ہماری ان حرکات پہ شیطان بھی ہماری طرف دیکھنے کو مجبورہوتا ہوگا۔۔۔۔ عوام کی خدمت کے دعویدار ایک بھی ایسے منصوبے کا سنگ بنیاد نہیں رکھتے جس میں ان کی مالی شراکت ممکن نہ ہو۔

اسی لیے تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس ، نکاسی آب کے منصوبے تقریروں میں اچھے لگتے ہیں لیکن عملاًنہیں۔لہذا ہر بڑا خدمتگار اپنی اگلی نسل کو پاکستان سے دور رکھتا ہے اور اپنی ذاتی صحت کے معاملات کو بھی۔ کیونکہ اس کا تن من دھن صرف عوام کے لیے ہے ۔

یہ سب جان کر شیطان بھی سوچتا ہوگا کہ مجھے ہی کیوں جنت سے نکالا گیا؟ زخموں سے چور سڑک کے کنارے پڑے شخص جس میں ابھی جان باقی تھی اور اسے فوری طور گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے جایاجاسکتا تھا کہ شاید اس کی جان بچ جائے لیکن اب سب سے پہلے سوشل میڈیا کی دوڑ نے بجائے اسپتال لے جانے کے موبائل فون سے ویڈیو بنائی جاتی ہے کہ جب تک روح قفس عنصری کو پرواز نہ کرجائے پھر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کرکے وائرل کی جائے تاکہ لاکھوں لائیکس مل سکیں۔

مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔طالب علم ہمارے ملک کا سرمایہ قراردیئے جاتے ہیں لیکن جس رفتار سے سرمایہ کو ضائع کیا جارہا ہےاس کا ازالہ کون کرے گا؟نجی تعلیمی ادارے ہوں یا قومی طلبہ میں تعلیم کا شوق کم ہوتاجارہا ہے۔غیرنصابی سرگرمیوں کا اہتمام بہت زور وشور سے کیا جاتا ہے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جاتا ہے۔

لیکن نصاب کو مکمل سمجھنا اور اس میں ہونے والی جدت کو جزب کرنے کوکوئی تیار نہیں۔جدیدت سے ہم آہنگی اب صرف سوشل میڈیا کے استعمال ، فیشن اورنشے تک محدود ہوچکی ہیں۔

ایسے میں لال رنگ کے استعمال کے ساتھ اور کون سی آزادی درکار ہے؟ میں یہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی قابل فخر کارنامہ گردانہ جاتا ہے۔رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کرنا ہو یا سگنل کا توڑنا ۔ایسے میں اگر کوئی پڑھا لکھااصول پسند ٹریفک پولیس والامل جائے اور چالان کرنے کی کوشش کرے تو جس انداز میں اس کو دھتکاراجاتا ہے اندازہ ہوجاتا ہے کہ واقعی ہم بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں، ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔

کیونکہ ہم وہ شہری ہیں جہاں قانون بعد میں بنتے ہیں ان کے توڑ پہلے سوچ لیے جاتے ہیں۔ایسے میں قانون کی عملداری ہمارے لیے کیاحیثیت رکھتی ہے؟ تو یہ کہنا کہ ہم ترقی پذیر قوم ہیں بالکل غلط ہے۔ کیونکہ ترقی کا ایک رخ نہیں ہے۔ہم ترقی کسی اور رخ پہ کررہے ہیں جس کو دیکھ کے شیطان بھی حیران ہے۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk