اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق

December 06, 2019

’’ اسلام‘‘ امن و سلامتی کا داعی اور احترام ِانسانیت کا سب سے عظیم عَلم بردار ہے، اس کی نگاہ میں بنی نوع انسان کاہر فرد، بلاتفریقِ مذہب و ملّت احترام کا مستحق ہے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔(سورۃ البقرہ)قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ کرتا ہے:ترجمہ:’’ اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبر و اکراہ کرنا چاہتے ہو‘‘۔اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا ،بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے ،اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے، جیسا کہ آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے دوسرے یہ کہ اگر کسی کو اپنے کسی عقیدے کی طرف دعوت دینا ہے یا کسی کے عقیدے پر تنقید کرنی ہے تو عمدہ پیرائے اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ارشادِ ربّانی ہے:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے پیرائے میں نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے بحث و مباحثہ اور اختلاف بھی اچھے طریقے سے کرو۔(سورۃ النحل )

انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم عطاکی ہے، اس لیے وہ کہتا ہے کہ انسان کو اندھا بہرا ہو کر کسی چیز کو قبول نہیں کرنا چاہیے اللہ پر ایمان و یقین یعنی توحید اسلام کا سب سے بنیادی ستون ہے مگر اس توحید کے ماننے میں بھی قرآن پاک انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس کی عقل کوجامد اور اپنے ماحول کا پابند کرنے کے بجائے وہ اس وسیع و عریض دنیا اور پوری کائنات کی وسعت پر غور کرنے پر ابھارتا ہے، اس لیے کہ جب انسان کائنات کی تخلیق اور اس کے نظام پر غور کرے گا تو اس کی عقل و فہم وحدانیت ماننے پر اسے مجبور کریں گے اور وہ خود بخود پکار اٹھے گا کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق و مالک ہے، قرآن کی سیکڑوں آیتوں میں اسے غور و فکر پر ابھارا گیا ہے۔

مدینۂ منورہ میں ۸ھ تک اسلامی حکومت میں غیر مسلم جتنے تھے، وہ رعایا کی شکل میں نہ تھے، بلکہ قبائلی زندگی میں جس طرح تمام قبائل برابر کے حقوق کے حق دار ہوتے ہیں ،اس طرح میثاق مدینہ کی رو سے تمام قبائل یعنی اوس خزرج وغیرہ اسلامی حکومت سے معاہدہ کرکے اس میں برابر کے شریک تھے۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ کو ایک ایسے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جو سیاسی تفوق سے زیادہ شخصی کردار کی بنیاد پر قابل احترام ہو اور اسے معاملات کے فیصلوں میں حَکم مان لیا گیا ہو۔

جب خیبر فتح ہوا تو یہودی بستیوں پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد ان پر جزیہ لگایا گیا جو ایک تاوان جنگ کی سی صورت میں تھا۔ اس کے بعد اسلامی حکومت میں وسعت ہوئی اور مسلمانوں کو ۱۰ھ کے آتے آتے تمام جزیرۃ العرب پر غلبہ حاصل ہوگیا، اب غیر مسلم رعایا کا مسئلہ پیدا ہواتو اسلامی تاریخ میں یہ حقائق موجود ہیں کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو تمام بنیادی حقوق عطا کیے گئے ۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ فاتح قوم نے کبھی بھی مفتوح اقوام کو اپنے برابر کے حقوق نہیں دیئے ،زمانۂ قبل از تاریخ سے آج تک کی تاریخ میں ایسے ہزارہا واقعات مل جائیں گے کہ فاتح قوم نے نہ صرف یہ کہ مفتوح قوم کو غلام بنایا، بلکہ ان کے مذہب، ثقافت اور معیشت تک کو برباد کیا۔

انسانی فطرت سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی کہ مسلمان جب غالب ہوگئے تھے اور جزیرۃ العرب میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پیرو کار جو ان کے رسولﷺ اور دین کو نہیں مان رہے تھے اور ہمیشہ سے ان سے برسرپیکار رہے تھے، ایسے میں مسلمان ان سے کم از کم بہت نرم برتائو بھی کرتے تو ان کو اپنا آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرسکتے تھے ،اس لیے کہ وہ غالب تھے۔ یہاں پر بھی قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کوجبراً مسلمان بنائیں ،ارشاد ہوا’’ دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ یہ ایک بنیادی اصول بتا دیا گیا ہے کہ دین کے قبول کرنے میں یا کسی دین کو رد کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

اسلامی حکومت کی رعایا مشرک رہنا چاہتی ہو تو رہے۔ عیسائی یا یہودی کوئی بھی مذہب اس کا ہو ،وہ رکھے، اسلامی حکومت یا اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا مذہب اس کی حدود میں زندہ نہ ر ہے، بلکہ اگر کسی بھی حد تک اشتراک عمل ممکن ہو تو اسلام اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے، مثلاً اہل کتاب اور اہل توحید میں جہاں تک اشتراک عقائد ہے یا اشتراک عمل کی راہیں نکل سکتی ہیں ،اسلام ان میں مل جل کر رہنے کا حکم دیتا ہے قرآن حکیم میں ہے:(ترجمہ) یعنی اے اہل کتاب، جو بات ہم دونوں میں متفق علیہ ہے آئو ،اس پر تو مل کر عمل کریں۔

یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں کو اللہ کے سوا پالن ہار نہ سمجھیں گے‘‘۔قرآن حکیم میں مذہبی عبادت گاہوں کے احترام میں ایک ایسا اشارہ بھی ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت گاہیں خواہ مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی سب کی سب یکساں محترم ہیں۔

عہدِ رسالت کی سیرت طیبہ اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی جس سے اسلام کی تبلیغ میں زور، جبر، زبردستی یا تشدد استعمال ہوا ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں، اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے:(ترجمہ)اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لاتے تو کیا اے پیغمبر ،آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘۔(سورۂ یونس:۱۰)

ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول ﷺ کے صحیفۂ وحی یعنی قرآن مجید پر ایمان لائے ،لیکن اس کے لیے قرآن مجید میں بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ دوسری آسمانی کتابوں کی صداقت کو بھی تسلیم کرے، کوئی مسلمان اس وقت تک سچا مسلمان نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ کلام پاک کے ساتھ اور دوسرے پیغمبروں کی کتابوں کو تسلیم نہ کرے، ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں ہے کہ اے مسلمانو! تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ ہماری طرف اتارا گیا اس پر اور جو کچھ ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ کی طرف اتارا گیا اس پر اور جو کچھ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دیا گیا اس پر اور جو کچھ اور سب پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا ،ہم ان سب پر ایمان لائے‘‘۔پھر سورۂ آل عمران میں یہی بات دہرائی گئی ہے، اس سے انکار کو کفر قرار دیا گیا‘‘۔سورۂ نساء میں ہے کہ اے وہ لوگو، جو ایمان لاچکے ہو ،ایمان لائو اللہ پر، اس کے رسولﷺ پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسولﷺ پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاری اور جس نے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتاب کا انکار کیا، وہ نہایت گمراہ ہوا‘‘۔حقیقت میں اسلام کی وہ یہ تعلیمات ہیں، جن کا وجود کسی دوسرے مذہب میں نہیں تھا، یہ رواداری اور اخوت کی سب سے بڑی تعلیم ہے۔

(…جاری ہے…)